مَیں ہندوستان ہوں ، مجھے بچالو… روزنامہ سیاستکا تاریخی سفر

   

محمد ریاض احمد
ہاں! مَیں ہندوستان ہوں، میرے دامن میں اُسی طرح مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں جس طرح مختلف خوشبوؤں سے معطر باغ یا چمن میں انواع و اقسام اور رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں یا کسی گلدستہ میں اپنی خوبصورتی سے اس کی شان و وقار میں اضافہ کرنے والے پھول جڑے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے دامن میں بسنے والے انسانوں میں کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔ کبھی کسی کا مذہب نہیں دیکھا، کسی کو ذات پات کی بنیاد پر نہیں پرکھا۔ کسی سے رنگ و نسل کی بناء پر پیار نہیں کیا۔ میں نے مسلمانوں کو بھی وہی اہمیت دی جس طرح ہندوؤں کو دی ہے، عیسائیوں اور سکھوں کو بھی اپنے سینے سے لگایا، بدھسٹوں اور جینوں، پارسیوں کو بھی اپنی محبت سے نوازا۔ حد تو یہ ہے کہ مذہب کا انکار کرنے والوں کو بھی اپنے گود میں بٹھایا، دامن میں سلایا اپنے کھیتوں میں اُگنے والا اناج کھلایا، میری وجود سے بہنے والی جھرنوں ندیوں ، تالابوں، سمندروں، پھوٹ پڑنے والے چشموں سے پانی پلایا۔ میں نے امیر کو بھی اپنے وجود میں سماں کر رکھا اور غریب کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ کر سہارا دیا۔ میں نے ہمیشہ ہی چاہا کہ مجھ میں بسنے والے تمام انسانوں میں انسانیت، دوستی محبت، امن و آشتی، صلہ رحمی، اخوت و ہمدردی اور بھائی چارگی کے پاکیزہ جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے رہیں، کیونکہ میرے اپنے شہری خوش ہوتے ہیں تو میری خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ میرے تمام ہندوستانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھے راجہ رجواڑوں، بادشاہوں، سلطانوں، نوابوں نے جس طرح سجایا سنوارا تھا، میری ہر خواہش میری ہر تمنا کا خیال رکھا تھا، مجھے سرسبز و شاداب بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ میرے دامن میں پھیلے کھیتوں نے جہاں خوشیاں بھردیں تھیں، وہیں حکمرانوں و رعایا کی سادگی، سادہ لوحی جذبہ و ایثار و خلوص، ان کی سچائی، دیانت داری، مہمان نوازی، شجاعت و بہادری، میرے وقار میں اضافہ کا باعث بنی۔ میں خاص طور پر مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں کو فراموش نہیں کرسکتا جنہوں نے اپنی بہادری کے ذریعہ میری شان میں اضافہ کیا۔ بابر نے میرے وجود کو استحکام بختشا تو ہمایوں نے بھی میرے وقار کو ایک نئی جہت عطا کی۔ اکبر نے میری خدمت میں کوئی کمی نہیں کی تب ہی تو اکبراعظم کہلایا۔ اس نے مذہبی بھید بھاؤ سے بالاتر ہوکر حکمرانی کے ذریعہ میرے حسن میں چار چاند لگا دیئے۔ جہانگیر کا انصاف میرے ذہن کے دریچوں میں آج بھی محفوظ ہے۔ شاہ جہاں اور ممتاز کی محبت ان کی محبت کی یادگار تاج محل کو میں کیسے بھلا سکتا ہوں، دنیا کے کونے کونے میں تاج محل میری پہچان میری شناخت بن گیا ہے۔ تاج محل کو مجھ سے اور مجھ کو تاج محل سے پہچانا جاتا ہے۔ اورنگ زیب جیسے دیانت دار اور خوفِ خدا رکھنے والے بادشاہ کی یادیں بھی میری سوچ و فکر میں آج تک باقی ہیں۔ عالمگیر اورنگ زیبؒ کو میں اس لئے نہیں بھول پایا کیونکہ وہ واحد بادشاہ تھا جس نے متحدہ عظیم ہندوستان یا اکھنڈ بھارت کے نظریہ کو حقیقی جامہ پہنایا تھا۔ قطب شاہی اور آصف جاہی حکمرانوں، ان کی رعایا پروری، علم نوازی کی بھی مہک آج بھی میری یادوں میں رچی بسی ہے۔ چارمینار سارے ہندوستانیوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ حیدرآباد میں ایک چھوٹا ہندوستان بستا ہے۔ میرے دامن میں پنپنے والی گنگا جمنی تہذیب یہاں موجود ہے۔ اس تاریخی شہر اور یہاں کے لوگوں نے بلالحاظ مذہب و ملت ، رنگ و نسل ، ذات پات ہر ہندوستانی کو پناہ دی ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب سقوطِ حیدرآباد کا واقعہ پیش آیا تھا، ’’پولیس ایکشن‘‘ کے نام پر بے قصور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی اور پھر مسلمانوں میں ایک عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگے تھے کہ اب ان کا کیا ہوگا۔ اُس دوران دو دوستوں نے صحافت کے ذریعہ مسلمانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کرنے اور اُن میں پائی جانے والی مایوسی دُور کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ مَیں بات کررہا ہوں عابد علی خاں مرحوم اور محبوب حسین جگر محروم کی جنہوں نے تقریباً پون صدی قبل روزنامہ سیاست کی بنیاد ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے روزنامہ سیاست عوامی بھروسے کی علامت اور کمزور و بے بس عوام کی آواز بن گیا۔ سیاست کو آگے بڑھانے میں جہاں عابد علی خاں مرحوم اور محبوب حسین جگر مرحوم کا اہم کردار رہا، وہیں ’’انتخاب پریس‘‘ نے اس میں چار چاند لگا دیئے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ روزنامہ سیاست آج بھی زاہد علی خاں کی ادارت اور ان کے فرزند ِدلبند عامر علی خاں کی رہنمائی میں میرے دامن میں پلی بڑھی اُردو زبان کے فروغ میں مصروف ہے۔ روزنامہ سیاست صرف اخبار ہی نہیں بلکہ ایک تحریک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ روزنامہ سیاست نے اُردو کی آبیاری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا جس کا ثبوت اس کے اُردو دانی امتحانات میں لاکھوں طلبہ کی شرکت ہے۔ بیروزگار مسلم نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کی فراہمی، نوجوانوں کی محکمہ پولیس میں بھرتی، سرکاری اسکیمات سے مسلم اقلیت اور دلتوں کو استفادہ کروانے کے غیرمعمولی اقدامات، طلباء و طالبات کیلئے سرکاری اسکالرشپس کے حصول میں تعاون، لاوارث مسلم نعشوں کی تجہیز و تکفین ، شادی بیاہ میں بیجا رسومات کے خاتمہ کی تحریک، رشتوں کا دوبدو پروگرام ایسے چند ایک اقدامات ہیں جو روزنامہ سیاست نے قوم و ملت کی بھلائی کیلئے اُٹھائے ہیں۔
ائے میرے شہریو! یہ تو روزنامہ سیاست کا ذکر میں نے 15 اگست کی مناسبت سے کیا کیونکہ تقریباً پون صدی قبل 15 اگست کو ہی روزنامہ سیاست کا آغاز ہوا تھا۔ میں نے آپ کو ابتداء میں یہ بتایا تھا کہ حیدرآباد میں ایک چھوٹا ہندوستان بستا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس انداز میں مجھے تقریباً 200 برسوں تک انگریز سامراج نے لوٹا، میرے گود میں کھیلنے والے حریت پسندوں کو شہید کیا، وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مَیں ساری دنیا کے چند ایک خوشحال ترین ممالک میں شامل تھا۔ مجھے ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہا جاتا تھا۔ انگریزوں نے مجھے لوٹا، تباہ و برباد کیا، میری پہچان مٹانے کی کوشش کی، میرے دامن میں کھیلنے والے انسانوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ حالانکہ بنگال کے سراج الدولہ نے مجھے لٹنے سے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن میر جعفر، مانک چند، امیر چند اور دیگر غداروں نے رابرٹ کلائیو کے ساتھ مل کر سازش رچی اور صرف 24 سال کی عمر میں سراج الدولہ کا سَر قلم کرکے انہیں شہید کردیا۔ مَیں میسور کے حیدر علی اور ان کے بہادر و شجیع فرزند شیر میسور ٹیپو سلطانؒ کو بھی ہرگز فراموش نہیں کرسکتا۔ ان دونوں نے انگریزوں سے میری حفاظت کیلئے جان کی بازی لگا دی۔ مجھے فخر ہے کہ اپنے فرزند ٹیپو سلطانؒ پر جنہوں نے میری خاطر اپنے آپ کو قربان کردیا اور جب وہ شہید ہوئے، اس کے بعد بھی انگریز میرے اس بہادر فرزند کی نعش کے قریب جانے سے گھبرا رہے تھے۔ مجھے کرنول کے نواب غلام رسول خاں بھی یاد ہیں، جنہیں انگریزوں نے صرف اس بناء پر کھانے میں زہر دے کر شہید کر ڈالا تھا، کیونکہ انہوں نے میری حفاظت کیلئے ہتھیار جمع کرنا شروع کردیئے تھے۔ مَیں ہندوستان ہوں۔ مَیں مولانا پیر علی خاں جیسے مجاہد آزادی کی یاد کو آج بھی اپنے ذہن و قلب میں سمایا ہوا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے محبت کا غیرمعمولی ثبوت دیتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو بوسہ دیا اور بڑے فخر کے ساتھ موت کو گلے لگایا۔ میرے ایک اور فرزند مولوی عبداللہ شاہ فیض آبادی انگریزوں کیلئے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ انگریزوں نے اُن کے سر پر اس وقت کے 50 ہزار روپئے کا انعام رکھا تھا اور پھر راجہ جگناتھ کے غدار بھائی نے انہیں گولی مار کر شہید کیا اور ان کا سَر قلم کرکے انگریزوں کے حوالے کردیا۔ اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہر چھوٹا بڑا عہدیدار خوشیاں منا رہا تھا۔ مَیں رانچی کے شیخ بھکاری صاحب کو کیسے بھول سکتا ہوں جنہیں ان کے ایک اور مجاہد آزادی دوست امراؤ سنگھ کے ساتھ ایک ہی درخت پر پھانسی دی گئی تھی ۔ عظیم اللہ خاں، محمد بخت خاں، نواب خان بہادر خان کو بھی میں تو کیا کوئی ہندوستانی نہیں بھلا سکتا۔ میں نے وہ دردناک منظر بھی دیکھا جب آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون بھیجنے سے پہلے ان کے دو شہزادوں کے کٹے سَر ایک مشقاب میں رکھ کر انگریزوں نے انہیں پیش کیا۔ میری تاریخ میں کسی اور نے ایسی مثال پیش نہیں کی۔ میں محمد شیر علی کو بھی اپنی یادوں میں بسایا ہوا ہوں جنہوں نے وائسرائے لارڈ مایو کو انڈومان جیل میں حملہ کرکے قتل کردیا تھا اور سزائے موت سے پہلے شیر علی نے کہا تھا کہ مجھے اپنے ملک پر قربان ہونے پر فخر ہے۔ کیا آج ہندوستانی بیگم حضرت محل کو بھول پائے جنہوں نے آخری سانس تک انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی۔ تلنگانہ کے مولوی علاء الدین اور روحیلہ کمانڈرطرۂ باز خان بھی ناقابل فراموش ہیں۔ مولوی علاء الدین کو انڈومان کی جیل میں رکھا گیا اور 25 برسوں تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے انہوں نے مجھ پر اپنی جان نچھاور کردی۔ میں آپ کو میری امی جان جنہیں آپ ’’بھارت ماتا‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں، ان کے بارے میں بتاؤں گا ، دراصل بابائے قوم مہاتما گاندھی ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا محمد علی شوکت (علی برادران )کی والدہ عبادی بانو بیگم کو ’’ امی جان‘‘ کہا کرتے تھے اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارے کانگریسی قائدین عبادی بانو بیگم کو ’’امی جان‘‘ (مدر انڈیا) کہنا شروع کردیا، لیکن افسوس کہ آج نام نہاد قوم پرست ہندوستان کی امی جان کو ہی بھلا بیٹھے۔ میں ممبئی کے محمد عمر سبحانی کو کیسے بھول سکتا ہوں جنہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کو مستحکم کرنے کیلئے اپنی ساری دولت لٹا دی۔ تلک سوراجیہ فنڈ میں انہوں نے گاندھی جی کو بلینک چیک دے دیا تھا۔ ’’خلافت کمیٹی‘‘ کو سبحانی ولا حوالے کردیا تھا۔ انگریزوں سے دشمنی مول لی تھی۔ نتیجہ میں ان کے کاروبار کو اس وقت کے 3 کروڑ 40 لاکھ روپئے کا نقصان ہوا تھا۔ کیا ہم شہید اشفاق اللہ کو بھلا سکیں گے یا پھر عبدالقادر باوزیر کو فراموش کردیں گے جنہوں نے جنوبی آفریقہ میں گاندھی جی کی بھرپور مدد کی تھی۔ کیا بہار کے بطخ میاں کو فراموش کردیں گے جنہوں نے گاندھی جی کو زہر دینے سے متعلق انگریزوں کی سازش کو ناکام بنادیا تھا۔ مَیں بنگلور کے ’’خلافت والے‘‘ حاجی عثمان سیٹھ کو بھی فراموش نہیں کرسکتا۔ جنہوں نے اپنی ساری دولت تحریک آزادی کیلئے خرچ کردی یہاں تک کہ اپنے بیٹے کی بولی لگا دی۔ مَیں حسن سفرانی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا جنہوں نے ’’جئے ہند ‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ جیسے نعرے کے ذریعہ تحریک آزادی میں ایک نئی جان ڈالنے والے مولانا حسرت موہانی پر ہمیشہ مجھے فخر رہے گا۔ مَیں مولانا عبید اللہ سندھی کو بھی اپنی یادوں سے نہیں نکال سکتا۔ مجھے عبدالحبیب یوسف مرفانی بھی یاد ہیں جنہوں نے سبھاش چندر بوس کی قائم کردہ ’’آزاد ہند فوج‘‘ میں نمایاں کردار ادا کیا اور سب سے زیادہ نقد رقم پیش کی۔ جس وقت آزاد ہند کی فوج نے ’’آزاد ہند بینک‘‘ شروع کیا جس میں سیوک ِ ہند ایوارڈ پانے والے عبدالحبیب نے کثیر مقدار میں سونے کے زیورات، اپنی جائیداد کے تمام دستاویزات جن کی مالیت ایک کروڑ 3 لاکھ روپئے بنتی تھی، نیتاجی سبھاش چندر بوس کے حوالے کئے۔ مَیں نے ایسے کئی مناظر دیکھے جہاں ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام کو درختوں پر اسی انداز میں پھانسی پر لٹکایا گیا تھا جس طرح درختوں پر پھل لٹکتے ہیں لیکن افسوس میرے ان بیٹوں کو فرقہ پرست درندوں نے بھلا دیا۔ اُن کی یادوں کو تاریخ کی کتابوں سے مٹانے اور ہٹانے لگے لیکن مَیں ان فرقہ پرست درندوں کو سنگین نتائج کا انتباہ دیتا ہوں اور محبان وطن ہندوستانیوں سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ میں فی الوقت بہت پریشان ہوں، میرے شہریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرکے جس طرح انگریزوں نے میری تباہی کا سامان کیا تھا، آج بھی کالے انگریز میرے ساتھ وہی عمل روا رکھے ہوئے ہیں۔ ائے ہندوستانیو! بے شک تم میری آزادی کا 75 واں جشن منا رہے ہومجھے یادو رکھو لیکن مجھے اِن فرقہ پرست درندوں سے بچالو ، بچالو، بچالو…
mriyaz2002@yahoo.com