مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کی غیرطبعی موت

   

فیروز بخت احمد
سابق چانسلر مانو
ہم سب اپنے بچپن کے خوشبودار ذائقوں اور خداداد صلاحیتوں کے ذریعہ پروان چڑھے ان میں سے ایک ہماری مادری زبان کے تاریخی رسائل و جرائد جیسے ’’تھاکرمار جھولی ‘‘ (بنگالی ) ، ’’کھلونا ، پیام تعلیم ‘‘( اردو) ، ’’ہنس‘‘ ( مراٹھی ) ، ’’پراگ‘‘ (ہندی ) ، ’’چترالکھا ‘‘ (گجراتی ) اور ’’چنداماما ‘‘ تلگو وغیرہ ہیں۔ راقم الحروف نے ماں کا دودھ پیتے ہوئے ایک طرح سے زبان اُردو پی ہے ۔ اور اس زبان کو کسی مدرسہ ، اسکول یا کالج سے نہیں سیکھا بلکہ صرف ان رسائل و جرائد سے سیکھا ہے اور جو دراصل میرے لئے معلومات کا خزینہ تھیں۔ اُردو جرائد و رسائل ( خاص طورپر بچوں کے رسائل ) کتابوں اور اخبارات کے مطالعہ کے شوقین و پرجوش قاری کے طورپر میں اکثر اپنی ماں کی انگشت شہادت پکڑے مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ جایا کرتا تھا ۔ مری ماں اکثر مجھے شاہجہاں بادی فصیل بند شہر میں واقع اُردو کتابوں کے مشہور و معروف اسٹور مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ لے جایا کرتی تھیں جہاں ’’پیامِ تعلیم ‘‘ یہ بچوں کا اُردو ماہنامہ ہے کے علاوہ بچوں کے بہت سارے دوسرے رسائل کی فائلیں دستیاب رہتی تھیں جن میں ’’کھلونا ، ٹافی ، شریر ، چندانگری ، گھونچہ ‘‘ وغیرہ وغیرہ بھی شامل تھے ۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان رسائل کی سالانہ فائل کو ایک بنڈل کی شکل میں محفوظ رکھا جاتا اور پھر ارزاں قیمت پر ان کی فروخت عمل میں آتی جس سے مطالعہ کے شوقین ہم جیسے بچوں کا فائدہ ہوجاتا ۔ ایک تو اُنھیں اپنے مطلوبہ رسائل مل جاتے اور دوسرے سستی قیمت میں خریدنے کا موقع حاصل ہوتا لیکن کتابوں بالخصوص بچوں کے ادب کے شوقین افراد کو یہ جان کر صدمہ پہنچا کہ اُردو کتابوں کی قیمتی اور باوقار دوکان بند کردی گئی ۔ چونکہ مصنف کی بچپن کی یادوں کی جڑیں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے ساتھ گہرائی تک پیوست ہیں یا اس مکتبہ کے ساتھ اُن کی یادیں گیرائی سے جڑی ہوئی ہیں اس لئے مصنف کو اُردو کی اس جنت سے تعلق رکھنے والی تین شخصیتوں کے نام یاد ہیں ۔ جناب شاہد علی خاں ، حسین حسان ندوی اور علی خسرو زیدی ۔ علی خسرو زیدی 2014 ء میں سبکدوش ہوئے ۔ اُنھیں اُردو سے بہت زیادہ تعلق خاطر تھا اور ہمیشہ اُنھیں زبان اُردو کی فکر لاحق رہا کرتی ۔ وہ حالیہ عرصہ تک ایک معمولی تنخواہ کے عوض اسٹال پر خدمات انجام دے رہے تھے اور ایک دن ایسا آیا کہ اُن کی تنخواہ روک دی گئی جب کبھی انھوں نے حکام کو یاد دہائی کرائی ، توجہ دلائی اور اُن سے اس ضمن میں ملاقات کرتے تو اُنھیں ایسے حقارت سے دیکھا جاتا جیسے وہ کوئی بھیک مانگ رہے ہوں یہاں تک کہ اُنھیں ذلیل و رسواء بھی کیا گیا ۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جن چار ملازمین کی بھرتی کی گئی تھی یا اُن کے تقررات عمل میں لائے گئے تھے اُن میں سے ایک کو جامعہ یونیورسٹی میں واپس طلب کرلیا گیا ، دوسرے نے کم تنخواہ اور تنخواہ میں تاخیر سے عاجز آکر استعفیٰ دے دیا اور تیسرے کو اپنے اور اپنے اہل و عیال کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے کی خاطر رکشہ چلانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اس صورتحال سے مصنف کے ذہن میں اُس واقعہ کی یادیں تازہ ہوگئیں جب ممبئی کا مکتبہ فنڈز کی قلت کی وجہ سے بند ہونے والا تھا تب مصنف نے اخبارات میں اس مکتبہ کی قابل رحم حالت کے بارے میں لکھا اور اپنی تحریروں کے ذریعہ اُردو والوں کو اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوششیں کی اور ان کوششوں نے کام کیا ۔ چند فکرمند محبان و بہی خواہان اُردو نے درکار فنڈ فراہم کرتے ہوئے مدد کی چنانچہ ایک محب اُردو کی حیثیت سے مصنف مکتبہ کے ورکروں کی اذیت ناک حالت کو بھی محسوس کرسکتا ہے۔
مکتبہ آکسیجن پر ہے : اس اسٹور سے پہلے ممبئی اور علیگڑھ میں واقع اسٹورس پر تالے لگ چکے ہیں یہ ایک تلخ اور تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی ملک کی مشہور و معروف اور باوقار یونیورسٹیز میں ایک یونیورسٹی اس کے معاملات کی ذمہ دار ہے ۔اس کے باوجود پبلی کیشن ہاؤس خستہ حالی کا شکار رہا ، بستر مرگ پر رہا اور بالآخر موت کی آغوش میں چلا گیا ۔ موجودہ حکمرانی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یا شائد اُردو مخالف ماحول کو موردِ الزام ٹھہرانا آسان ہوسکتا ہے ۔ بہرحال اُردو اور مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ جیسے اُردو کے اداروں کو آکسیجن پر پہنچانے کے سب سے زیادہ اُردو کے خودساختہ ماہرین ہمدردوں یا اُردو والے ہیں ۔ اُردو کے نام پر اُردو کی روٹی کھانے والے یہ لوگ اُردو سے صرف زبانی ہمدردی کرتے ہیں اس کے فروغ اور اس کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات نہیں کرتے ۔ خاص طورپر اُردو کے وہ پروفیسرس جو اُردو میڈیم اسکولوں کو انگریزی کے معیاری اسکولوں کی سطح پر لانے کی بجائے اپنی اولاد کو انگریزی میڈیم کے مشہور و معروف اسکولوں میں شریک کرواتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ان کے بچے پبلک اسکولس میں پڑھ رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی مسلم گھرانوں میں دعوے کئے جاتے ہیں کہ اُردو ہماری مادری زبان ہے لیکن اُردو والوں کے ان گھروں میں بھی کوئی اُردو روزنامہ ، اُردو کتب و جرائد خریدنے کی زحمت نہیں کی جاتی ۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو گھروں میں بھی اُردو نہیں سکھاتے ۔ اُردو کی آوازیں اس کی صدائیں اور درست لب و لہجہ و تلفظ قصۂ پارینہ بن چکا ہے ایسے میں اُردو میں بحیثیت زبان ایک نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اسے ایک بوسہ حیات کی ضرورت ہے کیونکہ اُردو فی الوقت خستہ خالی اور انتہائی دردناک حالات سے دوچار ہے ۔
جہاں تک مکتبہ جامعہ پبلی کیشن کی مقبولیت اور اس کی اہمیت و افادیت کا سوال ہے ۔ مشہور و معروف اُردو شعراء ، اُردو ادب کے سرخیل تسلیم کئے جانے والی ادبی شخصیتوں جیسے خواجہ احمد عباس ، حفیظ جالندھری ، حسرت جئے پوری ، قتیل شفائی ، عصمت چغتائی ، سلام مچھلی شہری ، رضیہ سجادظہیر ، کرشن چندر ، راجہ مہدی علی خان ، بلونت سنگھ ، کنہیا لال کپور ، رام پال ، ساحر لدھیانوی ، سراج انور ، بشیشر پردیپ ، شفیع الدین نیئر ، کیف احمد صدیقی ، ڈاکٹر کیول دھیر ، کے پی سکسینہ ، اظہر افسر ، پرکاش پنڈت ، عادل رشید ، ایم ایم راجندر ، جیلانی بانو ، نریش کمار شاد ، ابرار محسن ، مسعودہ حیات ، عشرت رحمانی ، خالق انجم اشرفی اور اُردو دنیا کی بہت ساری اہم شخصیتوں نے اپنی معرکتہ الآراء کتابیں مکتبہ جامعہ سے شائع کروائیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی شہرت 1940 تا 1990 کے دوران گھر گھر میں تھی ۔
ممتاز قانون داں و محب اُردو عتیاب صدیقی کے مطابق جو سابق میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مشیر قانونی رہ چکے ہیں ادیب و شعراء اور مصفین سارے سماجی ، مذہبی اور سیاسی نظام کی آنکھیں ہوتی ہیں اور زبان و ادب کے جہان کے تئیں ان کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور جہاں تک اُردو کا سوال ہے یہ دل کی زبان ہے جو راست قلوب میں اُترتی ہے ۔ یہ وہ زباں ہے جو ہمیشہ مثبت پیام دیتی ہے ۔ اس لئے اُردو والوں کو مثبت رہنا چاہئے اور منفی سوچ و فکر سے دور رہنا ہوگا ۔ اُردو والوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ آج سوشل اور الیکٹرانک میڈیا خزینہ معلومات کا مضبوط و مشہور ذریعہ بن گئے ہیں ایسے میں دوسری زبانوں کے مصنفین ادیب و شعراء اور صحافیوں کی طرح اُردو ادیبوں و شعراء کو بھی انٹرنیٹ کا بھرپور استعمال کرنا چاہئے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اُردو ادیبوں و شعراء کی ایک اچھی خاصی تعداد اسمارٹ فونس اور کمپیوٹرس کے ذریعہ پہلے ہی خود کو عالمی سطح پر جوڑ چکے ہیں اور زبان اُردو کی مٹھاس اس کی اثرانگیزی کو عوام تک پہنچا رہے ہیں ۔
دوسری طرف پروفیسر عقیل احمد ڈائرکٹر این سی پی یو ایل (نیشنل کونسل فار پروموشن آف اُردو لینگویج ) کا خیال ہے کہ اُردو کی مقبولیت کا راز اُس کا سیکولر کردار ہے اور ہند و بیرون ہند اس کے چاہنے والے پائے جاتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر اُرو برصغیر تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی زبان ہے اور تمام عالمی زبانوں میں سے ایک مقبول ترین زبان ہے ۔ نہ صرف یہ برصغیر کی آواز ہے بلکہ سارک کی ایک اہم ترین رابطہ کی زبان بن گئی ہے ۔ مکتبہ کے بند ہونے سے متعلق پروفیسر عقیل احمد کہتے ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حکام کو مل بیٹھ کر اسے ایک نئی زندگی دینے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس ضمن میں این سی پی یو ایل مدد کیلئے تیار ہے ۔ بہرحال حیرت اس بات کی ہے کہ مکتبہ اُردو اسٹال کے بند ہونے پر چند ایک صحافیوں و ادبی شخصیتوں کو چھوڑکر کوئی پریشان یا فکرمند ہوا ہو ، حد تو یہ ہے کہ مکتبہ جامعہ کے انچارج پروفیسر شہزاد انجم تاریخی اُردو بک اسٹور کی بحالی و احیاء کو لیکر بے بس و بے حس دکھائی دیتے ہیں ۔