مہاراشٹرا میں سیاسی اتھل پتھل

   

رہ گئی تھم کے گردشِ دوراں
روز و شب سے گذر گیا انساں
مہاراشٹرا میں سیاسی اتھل پتھل
مہاراشٹرا میں ایک ماہ سے جاری سیاسی اتھل پتھل آج ختم ہوجانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے ایوان میں اکثریت کی آزمائش کی مہلت دی تھی دیویندر فڈنویس کو حکومت چلانے کے لیے اپنی عددی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا لیکن اس سے پہلے ہی حکومت ڈھیر ہوگئی ۔ شیوسینا ۔ کانگریس اور این سی پی کے اتحاد نے گورنر مہاراشٹرا کے سامنے جو چیلنج کھڑا کیا تھا اس کا آج حتمی فیصلہ سامنے آگیا ۔ گورنر مہاراشٹرا نے بی جے پی کے دیویندر فڈنویس کو حکومت بنانے کی دعوت دے کر ایک دستوری و سیاسی تنازعہ کھڑا کیا تھا ۔ اب اس تنازعہ کو فڈنویس اور اجیت پوار نے از خود ختم کردیا ۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملہ میں مزید تنازعات پیدا ہونے سے گریز کیا ۔ مہاراشٹرا میں ہر لمحہ نئے واقعات رونما ہوتے رہے ۔ گورنر کے رول سے ملک کا ہر شہری واقف ہونے کے بعد فڈنویس حکومت کا قیام خلاف قانون ثابت ہوچکا تھا ایسے میں اس حکومت کو اپنی عوامی طاقت کے مظاہرہ کے ایک دن قبل ہی شکست تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہونا پڑا ۔ مہاراشٹرا کے گورنر ہوں یا صدر جمہوریہ یا وزیراعظم اور وزارت داخلہ ہر ایک نے مہاراشٹرا کے کیس میں اپنی دستوری ذمہ داریوں سے ہٹ کر قدم اٹھائے تھے اور یہ ایک معیوب عمل تھا ۔ مرکزی طاقت نے اپنے اختیارات کو نا پسندیدہ طریقہ سے بروے کار لاکر دستوری بحران پیدا کردیا تھا ۔ کسی بھی ریاست میں منقسم رائے دہی سے ایک کمزور سیاسی گروپ کسی بھی طرح سے عوام کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوتا ۔ پارٹی قائدین کی سودے بازی اور انحراف کی سیاست کو ہوا دینے میں ناکام بی جے پی حکومت کو بالآخر قدم پیچھے ہٹالینے پڑے ۔ وہ ہر حال میں اپنا اقتدار یقینی بنانے کی کوشش کررہی تھی اور سیاست کے تمام آداب کو بالائے طاق رکھ کر قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑا رہی تھی ۔ مہاراشٹرا میں جو کچھ ہورہا تھا وہ قانون دستور کو پیروں تلے کچل کر حکومت سازی کا عمل پورا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ سیاسی اداروں اور جمہوری اصولوں کے ساتھ من مانی طریقہ سے کھلواڑ کی جاتی ہے تو اس سے کئی سنگین سیاسی سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ جب ہر پارٹی اپنے دستوری اور جمہوری اصولوں کو نظر انداز کرنے لگے تو پھر ہندوستان کی سیاست میں ایک بدترین دور شروع ہوگا اور یہ سیاسی اور دستور اور جمہوریت کو دفن کر کے ہی جائے گا ۔ لہذا عوام کی بڑی تعداد کو ہی اس کی فکر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابات کے دوران سیاسی فیصلہ سازی میں سمجھ داری سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر عوام شعوری طور پر درست امیدوار کو ووٹ دیں تو ایک مضبوط طاقت بن کر ابھرے گی ۔ مہاراشٹرا کی تمام پارٹیاں اپنے اپنے ارکان اسمبلی کو بچانے کی فکر میں مصروف رہیں ۔ ارکان اسمبلی کو حریدنے کا بھی عمل تیز کردیا گیا لیکن ارکان کو خریدنے میں جب ناکامی ہوئی تھی فڈنویس حکومت اپنے طور پر استعفیٰ دے کر ایک طرح سے سیاسی رسوائی سے بچ گئی ۔ اجیت پوار نے یوٹرن لے کر بی جے پی کے تمام منصوبوں کو ناکام بنادیا ۔ دراصل 12 نومبر کو مہاراشٹرا میں صدر راج کے نفاد کے فوری بعد پارٹیوں نے اپنے ارکان اسمبلی کی حفاظت کا عمل تیز کردیا تھا ۔ اپنے اپنے ارکان اسمبلی کو لے کر ایک ہوٹل سے دوسری ہوٹل دوڑتے رہے ۔ گورنر نے جب راتوں رات دیویندر فڈنویس کو طلب کر کے صبح حلف دلایا تو اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اپنی دوڑ میں شدت پیدا کردی تھی ۔ 23 نومبر کی صبح جو کچھ ہوا یہ جمہوری ہند کی تاریخ کا افسوسناک واقعہ تھا لیکن سپریم کورٹ نے مہلت دی ہے ۔ مگر خط اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے ہی ہتھیار ڈالدئیے گئے ۔ اب شیوسینا ۔ این سی پی اور کانگریس کو اپنے ارکان اسمبلی کی تائید کے ساتھ حکومت سازی کا عمل تیز کرنا ہے ۔ اب ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے گورنر کی جانب سے شیوسینا اتحاد کو مہلت دی جاتی ہے تو شیوسینا کانگریس اور این سی پی کو اس سلسلہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور اپنے ارکان اسمبلی کو محفوظ رکھتے ہوئے ایوان میں مطلوب اکثریت کو ثابت کر دکھانا ہوگا ۔ اگر یہ اتحاد بھی عین وقت پر اپنی عددی طاقت کے مظاہرے میں ناکام ہوتا ہے یا پھر بی جے پی پھر سے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کرے تو ایوان میں کراس ووٹنگ یا اپنی پارٹی کے وہپ کی خلاف ورزی کرنے والے کتنے ارکان سامنے اتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن ہر ایک منتخب رکن اسمبلی کو اپنے رائے دہندوں کے پاس ضرور جانا ہوتا ہے اور انہیں عوام سے ووٹ مانگنے ہوتے ہیں ۔ اگر انہوں نے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہونچایا تو عوام انہیں دوبارہ ووٹ دینے پر غور کریں گے ۔