مہا دیو دیسائی ،عظیم گاندھیائی قائد

   

رام چندر گوہا
دوسرے ہندوستانیوں کی طرح میں بھی یہ سوچتے ہوئے بڑا ہوا کہ 15 اگست وہ دن ہے جب 1947ء میں آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت وجود میں آئی تھی تاہم حالیہ دنوں میں 15 اگست کے ایک نئے معنی و مطلب حاصل ہوئے۔ یہ ایسا مطلب ہے جو 15 اگست سے کسی بھی طرح غیرمتعلق نہیں بلکہ اس کا 15 اگست (یوم آزادی) سے گہرا تعلق ہے۔ میری سوچ و فکر کے مطابق 15 اگست 1947ء میں 15 اگست 1942ء بھی پوری طرح شامل رہا۔ 15 اگست 1942ء کو مہادیو دیسائی کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے موت ہوئی۔ میرے خیال میں انہوں نے ملک کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اگر ان کا تعاون و کردار حاصل نہ ہوتا تو ہندوستان انگریزوں کے تسلط اور ان کی غلامی سے کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود مہادیو دیسائی جسے محب و طن مجاہد آزادی کو مجرمانہ انداز میں فراموش کردیا گیا۔ مہادیو دیسائی نے ملک کی آزادی کیلئے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ 1917ء کے دوران احمدآباد میں گاندھی جی کے ساتھ جدوجہد آزادی میں شامل ہونے سے لے کر آغا خاں پیالیس میں اپنی موت تک مہا دیو دیسائی نے خود کو مہاتما گاندھی کی خدمت کیلئے وقف کردیا تھا۔ خود کو اس میں غرق کردیا تھا۔ وہ جہاں گاندھی جی کے معتمد خاص (سیکریٹری) ٹائپسٹ ، کونسلر، کوریئر، مترجم، مسائل کو حل کرنے والے تھے، وہیں وہ گاندھی جی اور تحریک آزادی کیلئے بہت کچھ تھے۔ ایسے میں گاندھی جی نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کچھ یوں کیا۔ کیا ہم یہ کہیں کہ آپ پر کام کرنے کا خبط سوار ہے، کیا آپ کو اس بات کا پتہ نہیں کہ اگر آپ کو کچھ ہوگیا، آپ معذور ہوگئے تو میرا کیا ہوگا میں تو اس چڑیا کی طرح ہوجاؤں گا جو پروں سے محروم ہے۔ اگر آپ بیمار ہوجائیں گے پر آجائیں گے۔ بستر مرگ پر چلے جائیں گے تو مجھے میری تین چوتھائی سرگرمیوں کو بند کرنا پڑے گا۔
مہا دیو دیسائی کو گاندھی جی کے علاوہ سب سے زیادہ کوئی اور جانتا تھا تو وہ گاندھی جی کی انگریز معتقد
Meira Behn
(میڈ لائن سلیڈ) تھیں۔ ان دونوں کی ملاقات اس وقت ہوئی جب مہادیو نومبر 1925ء میں احمدآباد اسٹیشن پر مہرا کا خیرمقدم کرنے اور انہیں گاندھی جی کے پاس لے جانے آئے تھے۔ دونوں جیل میں بھی ایک ساتھ رہے۔ اس ملاقات کے 17 سال بعد جب دیسائی کی موت ہوئی تب میڈ لائن سلینڈ نے اپنی یادوں پر مبنی کتاب
A Spirit’s Pilgrimage
میں لکھا کہ مہا دیو دیسائی بلند قامت جاذب نظر شخصیت کے حامل تھے۔ ان کے چہرے پر مونچھ بھی اچھی نظر آتی تھیں۔ سر پر پتلے پتلے ہال بھی ان کے دانشورانہ مزاج کا اظہار کرتے ، فطرتاً وہ بہت حساس تھے۔ وہ ہر پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلوں کو فوری طور پر بڑی آسانی سے سمجھ پاتے وہ باپو کے دایاں ہاتھ تھے۔ وہ مباحث میں بڑھ چرھ کر حصہ لیتے مسودہ تیار کرتے مضامین تحریر کرتے تقاریر کو تحریری شکل میں منتقل کرتے ان سب سے بڑھ کر وہ بایو کے تئیں بہت سنجیدہ رہا کرتے تھے۔ ہر وقت ان کے حکم کی تعمیل میں مصروف رہتے ۔ باپو اور ان کے کاموں سے قربت ہی ہمارا مضبوط بندھن تھا۔
اگست 1942ء میں جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا اعلان کرنے پر گاندھی جی کو گرفتار کیا گیا۔ مہا دیو دیسائی کی بھی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں پونہ میں گاندھی جی کے ساتھ آغا خاں کے گھر میں قید کیا گیا۔ دوسرے قیدیوں میں میرابین بھی شامل تھیں۔یہ جانتے ہوئے کہ یہ طویل قید ہوگی، 14 اگست 1942ء کو مہادیو نے میرا سے یہ کہا: ’’لکھنے کیلئے کیا بہترین موقع ہوگا، میرے ذہن میں کم از کم 6 کتابیں ہیں جنہیں میں لکھنا چاہوں گا، لیکن بدقسمتی سے دوسرے ہی دن ان کے قلب پر حملہ ہوا اور وہ چل بسے۔ مہادیو کی عمر اس وقت 50 سال تھی۔ دوسرے دن گاندھی جی نے وہ سوٹ کیس کھولا جو مہادیو جیل میں اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس سوٹ کیس میں کچھ کپڑے تھے۔ بائبل کا ایک نسخہ تھا جسے انہیں برطانوی جہدکار اگاتھا ہیریسن نے بطور تحفہ پیش کیا تھا۔ بعض اخبارات کے تراشے تھے، کئی کتابیں اور ساتھ ہی ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور کے ڈرامے ’’مکتا دھارا‘‘ کے ساتھ ساتھ علاوہ انگریزی کتاب ’’بیاٹل فار ایشیا‘‘ تھی۔ مہادیو دیسائی گجراتی اور انگریزی ادب کے ایک اسکالر تھے ۔ تاریخ ، سیاست ، قانون جیسے مضامین میں وہ خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ دیسائی دراصل گاندھی جی کے تمام معتمدین میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔ بہرحال جشن یوم آزادی کے موقع پر ہم اپنی قوم کو آزادی دلانے والے بی آر امبیڈکر ، ابوالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس، کملا دیوی چٹوپادھیائے، برسا منڈا، دادا بھائی نوروجی، جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، بھگت سنگھ اور کئی مجاہدین کو یاد کرتے ہیں، لیکن مہاد یو دیسائی ہمیں یاد نہیں رہتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔