میری ہر بات بے اثر ہی رہی

   

ممتا بنرجی پر بی جے پی کی یلغار
ناگپور سے کورونا کی دوسری دستک

رشیدالدین
’’محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے‘‘۔ جنگ بھلے ہی افواج کی ہو یا پھر سیاسی ، دونوں میں تمام چالیں ، ترکیبیں اور حربے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ ملک میں پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے مرحلہ کے آغاز کے ساتھ ہی سیاست توڑ جوڑ ، نئی دوستی اور اتحاد منظر عام پر آنے لگے ہیں ۔ سیاست میں مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا، لہذا انتخابات کے دوران وفاداریاں تیزی سے تبدیل ہونے لگتی ہیں۔ کل کے دشمن ، آج کے دوست اور برسوں کے دوست اچانک دشمن بن جاتے ہیں ۔ اس سیاسی کھیل میں اصول پسندی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی بلکہ موقع پرستی اور مفاد پرستی جماعتوں اور قائدین کا مذہب بن جاتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی سیاست وہ نہیں رہی جس پر آزادی کے معمار کاربند رہے اور ملک ہی نہیں بلکہ دنیا میں نام کمایا۔ اس مرحلہ پر پنڈت جواہر لال نہرو کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں جنہیں جدید ہندوستان کا معمار کہا جاتا ہے۔ سیاست میں اصول اور اقدار کی مثالیں قائم کرنے والے ایسے قائدین کو آج ان کے نام لیوا بھی بھلا چکے ہیں ۔ پنڈت نہرو نے آزادی کے بعد جب پہلی سرکار بنائی تو 5 ایسے وزراء کو شامل کیا جو کانگریس کے نہیں تھے ۔ قانون کے جانکار بی آر امبیڈکر کو وزیر قانون بنایا گیا ۔ اتنا ہی نہیں بھارتیہ جن سنگھ جو بعد میں بی جے پی میں تبدیل ہوگئی ، اس کے بانی شیاما پرساد مکرجی کو وزارت صنعت کے ساتھ کشمیر امور کی ذمہ داری دی گئی تھی ۔ آر ایس ایس سے قربت کے نتیجہ میں شیاما پرساد مکرجی نے نہرو۔ لیاقت علی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر جن سنگھ کی بنیاد رکھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سابق میں سیاسی قائدین میں کئی فراخدلی اور کشادہ ذہنی تھی۔ ان کے پیش نظر ملک اور اس کے عوام تھے۔ آج کی سیاست صرف اقتدار اور کرسی کیلئے ہے اور دھوکہ دہی ، انحراف اور بغاوت کی حوصلہ افزائی سیاست کا لازمی جز بن چکی ہے ۔ توڑ جوڑ کی سیاست اور اقتدار کی ہوس نے عوام اور ان کی خدمت کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ سیاست میں جاری یہ گراوٹ اور انحطاط پتہ نہیں کہاں جاکر رکے گا۔ سیاست میں اقدار اور اصول پسندی کی باتیں صرف کتابوں یا تقاریر میں باقی رہ چکی ہیں۔ سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے اور شکست دینے کیلئے تمام غیر اخلاقی اور غیر قانونی حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ 5 ریاستوں کے چناؤ کے لئے انتخابی مہم عروج پر ہے۔ روزانہ حلیفوں کی تبدیلی اور قائدین کے خیمے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔ نئے حلیف تیار کر کے مخالف کو کس طرح شکست دی جائے ، دن رات اس کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ناکام جلسوں اور ریالیوں کو کامیاب ظاہر کرنے کیلئے گودی میڈیا کا استعمال عام ہوچکا ہے۔ نریندر مودی کی حالیہ ریالی میں عوام کی کمی کو گودی میڈیا نے کچھ اس طرح پیش کیا کہ نریندر مودی نے سماجی فاصلہ کے ساتھ ریالی کی ہدایت دی تھی جس کے نتیجہ میں لوگ دور دور فاصلہ پر بیٹھے رہے ۔ یوں تو پانچ ریاستوں میں سیاسی توڑ جوڑ کا سلسلہ جاری ہے لیکن مغربی بنگال کی صورتحال ابھی سے دھماکو ہوچکی ہے۔ ممتا بنرجی سے اقتدار چھیننے کے لئے مودی۔امیت شاہ مشن کی تکمیل میں بی جے پی نے تمام حدود کو پار کرلیا ہے ۔ بنگال میں برسر اقتدار آنا بی جے پی کیلئے لوک سبھا میں انتخابات میں کامیابی کی طرح ہوگا ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ بی جے پی کی پیش قدمی روکنے کیلئے اپوزیشن کے پاس متحدہ حکمت عملی کی کمی ہے ۔ بنگال میں سیکولر ووٹ کی تقسیم کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ ترنمول اور کانگریس۔بائیں بازو اتحاد علحدہ مقابلہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ ضرورت سیکولر ووٹ کو تقسیم سے بچانے کی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اوپنین پول میں کیرالا میں بائیں بازو اور ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے ۔کانگریس اتحاد کی حکومت کی پیش قیاسی کی گئی ہے جبکہ مغربی بنگال کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے۔ ’’مقابلہ دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ کے مصداق ممتا بنرجی پوری ہمت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں لیکن بی جے پی کے لشکر کے آگے وہ تنہا پڑچکی ہیں۔ ترنمول کانگریس سے بڑے پیمانہ پر انحراف اور مودی ۔امیت شاہ کی تابڑتوڑ انتخابی مہم نے ممتا بنرجی کو کمزور کردیا ہے ۔ بی جے پی نے بنگال کے رائے دہندوں میں جس طرح زہر گھول دیا ہے ، وہ ممتا بنرجی کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی تربیت یافتہ بریگیڈ نے تنہا خاتون پر یلغار کردی ہے۔ ہوائی سفر کے ذریعہ بنگال پہنچنے والے ایرکنڈیشنڈ بی جے پی قائدین کا مقابلہ ہوائی چپل پہننے والی خاتون سے ہے۔ یہ وہی خاتون ہے جس نے بنگال سے بائیں بازو کے ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے قلعہ کو فتح کرتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی ۔ بنگال سے کمیونسٹوں کے اقتدار کا خاتمہ کسی خواب کی طرح تھا لیکن ممتا بنرجی نے ممکن کردکھایا ۔ اب بائیں بازو اور کانگریس اتحاد ممتا کا زوال دیکھنا چاہتا ہے ۔ بھلے ہی وہ بی جے پی کی کامیابی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ مغربی بنگال اور تشدد کا ایک دوسرے سے مضبوط رشتہ ہے ۔ انتخابات بھلے پنچایت کے ہوں یا پھر اسمبلی ہو یا لوک سبھا تشدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ جیسے کہ تشدد الیکشن کا لوازمہ ہو۔ انتخابی مہم کا ابھی تو آغاز ہوا لیکن بنگال میں ماحول کشیدہ دکھائی دے رہا ہے ۔ ترنمول اور بی جے پی کارکنوں کے ایک دوسرے پر حملے اور جھڑپیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ چیف منسٹر ممتا بنرجی کو نندی گرام حلقہ سے مقابلہ کا چیلنج کیا گیا اور وہ جب پرچہ نامزدگی داخل کرنے کیلئے گئیں تو ان پر حملے کا واقعہ پیش آیا ۔ انتخابات میں عوامی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ہر پارٹی کچھ نہ کچھ حیلے بہانے تلاش کرتی ہے اور انتخابی ماحول میں تو حادثہ کو بھی حملہ کا رنگ دے دیا جاتا ہے ۔ اگر واقعی حملہ ہوا ہے تو قابل مذمت ہے لیکن صورتحال اور شواہد کے اعتبار سے یہ واقعہ حملہ سے زیادہ انتخابی حربہ دکھائی دے رہا ہے ۔ چیف منسٹر کے اطراف موجود سیکوریٹی حصار کو توڑ کر حملہ کرنے والوں کی ابھی تک شناخت نہیں کی گئی ۔ چیف منسٹر کی سیکوریٹی میں تساہل کی جانچ کی جانی چاہئے۔ اگر کسی نے ممتا بنرجی کو واقعی ڈھکیل دیا ہے تو یہ حامیوں کی دھکم پیل سے بھی ممکن ہے۔ عوامی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے انتخابات کے دوران اس طرح کے واقعات لازمی طور پر پیش آتے ہیں، بی جے پی نے جس طرح ممتا کے اطراف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی ہے ، ایسے میں حملہ کا الزام عائد کرنا تعجب کی بات نہیں۔ ان پر حملہ اسی طرح کا دکھائی دے رہا ہے جس طرح حالیہ دنوں میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے کاروں کے قافلہ پر ہوا تھا ۔ دونوں واقعات میں حملہ آوروں کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ انتخابات میں کمزور موقف کو طاقتور میں تبدیل کرنے کے لئے حملوں میں بھی میچ فکسنگ کے معاملات ہوتے ہیں۔ بنگال میں بی جے پی کارکنوں پر حملوں کے نام پر سیاست کی جارہی ہے ۔ ایسے میں ممتا بنرجی نے حملہ کے نام سے ہوسکتا ہے، جوابی وار کیا ہو۔ رائے دہی کے تمام مراحل کی تکمیل تک اس طرح کے سیاسی اور انتخابی حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ممتا بنرجی پر حملہ کے معاملہ میں ترنمول کانگریس کو کس قدر فائدہ ہوگا اور ہمدردی کی اس لہر کو توڑنے بی جے پی کیا چال چلے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات طئے ہیں کہ ایک خاتون پر حملہ کے معاملہ میں ممتا بنرجی نے ہمدردی ضرور بٹوری ہے لیکن کیا یہ ہمدردی ووٹ میں تبدیل ہوگی اس کی کوئی گیارنٹی نہیں۔
ہندوستان میں کورونا وائرس کے بارے میں عوام بے فکر ہوچکے تھے لیکن اچانک ناگپور سے کورونا نے ملک میں دوسری دستک دی ہے ۔ یوں تو ہندوستان کی 6 تا 8 ریاستیں دوبارہ کورونا کی لہر کی زد میں ہیں لیکن سب سے زیادہ متاثر مہاراشٹرا کے علاقے ہیں۔ ناگپور جو کہ آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے ، وہاں حکومت نے کورونا پر قابو پانے کے لئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے ۔ مہاراشٹرا کے بعض دیگر علاقوں میں رات کا کرفیو نافذ کیا گیا ۔ عام طور پر وباؤں کو قہر خدا وندی کہا جاتا ہے ، لہذا ناگپور سے کورونا کا دوبارہ پھوٹ پڑنا شائد اس بات کی علامت ہے کہ آر ایس ایس کی سرگرمیوں سے قدرت ناراض ہے۔ مختلف فرقوں میں انتشار ، کمزوروں پر مظالم اور ہندوتوا ایجنڈہ کو مسلط کرنے کی کوششیں شدت اختیار کرچکی ہیں۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو اپنی سرگرمیوں پر کوئی شرمندی نہیں لیکن ملک کو ترقی کے بجائے تباہی کے راستہ پر گامزن کردیا گیا ۔ کورونا کے دوبارہ قہر کو دیکھتے ہوئے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر سنگھ پریوار کے پاس توبہ کی گنجائش ہے تو اسے عوام پر ظلم و زیادتی اور اپنے کالے کرتوتوں کے لئے خدا سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ ہر مذہب میں توبہ کی گنجائش ہے لیکن سنگھ پریوار کے ہندو راشٹر میں شائد توبہ پر بھروسہ نہیں ۔ کم از کم عوام کی بھلائی کیلئے سنگھ پریوار کو اپنی کارستانیوں کا محاسبہ کرنا چاہئے ۔ ممتاز شاعر جون ایلیا نے کیا خوب کہا ہے ؎
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا