میلاد مصطفی ﷺ

   

چہرہ آپکاؐ آفتاب محشر ہے
نور آپکاؐ جہاں میں گھر گھر ہے
آج میلاد النبی ﷺہے ۔ یوم رحمت اللعالمین ؐ ہے ۔ آج ہمارے پیارے آقا تاجدار کائنات سرور انبیاء شافع محشر ﷺکی بعثت مبارک کا انتہائی متبرک دن ہے ۔ ساری دنیا میں 12ربیع المنور ہی کو پیارے آقا ؐکی آمد کا جشن منایا جاتا ہے ۔ ہمارے اپنے ملک ‘ ہماری اپنی ریاست اور ہمارے اپنے شہر میں بھی آقا کی آمد کا جشن انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ ہمارے پیارے آقا ؐ کو رب کائنات نے سارے عالموں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ ہمیں آقا کا جشن مناتے ہوئے اسی جوش و جذبہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کسی کیلئے زحمت کا باعث نہ بن جائیں۔ ہم کو اپنے آقا کی بعثت کی خوشی میں سبھی کو شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق جشن منانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اپنے آقا کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرنے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوںکو پیارے آقا کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے دیگر ابنائے وطن کو پیارے آقا ﷺ کی زندگی اور ظاہری حیات مبارکہ کے اسوہ سے واقف کروانے کی ـضرورت ہے ۔ پیارے آقا ﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیں جو تعلیمات دی ہیں ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ساری دنیا میں معزز و محترم بن جائیں۔ ہمیں آج اپنے اعمال کو سدھارنے کا عہد کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنے اعمال کو سنتوں اور احکام خداوندی کے مطابق ڈھالنے کا عہد کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنے اعمال کے ذریعہ ساری دنیا کے سامنے ایک مثال بننے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح ہمارے آقا ﷺنے اپنے کردار کومثال بنا کر دنیا کے سامنے پیغام حق پیش کیا تھا اسی طرح ہمیں بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کے سامنے کردار محمدی ؐ پیش کرنے کیلئے ہمیں سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں پیارے آقا ﷺکی حیات مبارکہ ان پہلووں کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے جن کے ذریعہ امن و آشتی اور ہم آہنگی کا پیغام دیا جاسکتا ہے ۔ دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے ۔ دنیا میں بھائی چارہ کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ دنیا کو انسانیت سے بہرہ ور کیا جاسکتا ہے ۔ آج سے زیادہ متبرک موقع یا دن ہمیں شائد اپنے کردار کو بدلنے کیلئے دستیاب نہ ہوسکے ۔
ہمیں آج یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج ہم دنیا بھر میں رسواء کیوں ہو رہے ہیں۔ کیوں ہم پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ کیوں ساری دنیا میں ہم معزز ہوتے ہوئے بھی رسواء کئے جا رہے ہیں۔ ہم ان نبی ﷺ کی امت ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو انسانیت کا درس دیا ‘ مساوات کا پیغام دیا ‘ امن و آشتی کی تعلیم دی ‘ انصاف کو سب سے زیادہ مقدم قرار دیا ۔ غلاموں کو آزاد زندگی گذارنے کا حق دیا ۔ خواتین کوانتہائی معزز و محترم مقام سے سرفراز فرمایا ۔ ساری دنیا کو آداب زندگی سے روشناس کروایا ۔ ان سب کے باوجود ہم انتہائی مسائل کا شکار ہیں۔ ہمیں ساری دنیا میں شک کی نظر سے دیکھا جا رہاہے ۔ ہمیں رسواء کرنے کا کوئی موقع گنوانے کو کوئی تیار نہیں ہے ۔ ہمیں نشانہ بنانے کیلئے کئی محاذ تیار کردئے گئے ہیں۔ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ایک وقت تھا جب کسی مسلمان کو اطمینان اور اعتماد کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا تاہم آج ہم اس کے برخلاف حالات کا شکار ہیں۔ ان سب حالات کیلئے ہمیں اپنے عمل کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں تعلیمات نبوی ؐ کو رائج کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اصل اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔ ہمیںاپنے کردار کے ذریعہ ساری دنیا کے سامنے ایک مثال کے طورپر پیش ہونا چاہئے ۔ ہمیں اپنے عمل کے ذریعہ دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ اور انسانیت کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے ۔ اپنی زندگیوں کو بدلتے ہوئے اپنے وقار کو بحال کرنا چاہئے ۔ دنیا کے سامنے ایک ایسا پیغام دینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ ہم معزز قرار پائیں۔
آج یوم رحمت اللعلمین ؐ ہے ۔ آج ہمیں رحمتوں کے نزول کے متبرک لمحات میں اپنے آپ سے عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائیں گے ۔ تعلیمات نبوی ؐ کو زندگی کا اثاثہ بنائیں گے ۔ ان پر بہر صورت عمل کریں گے ۔ ساری قوم کو اس کیلئے عہد کرنا ہوگا کہ ہم حقیقی معنوں میں حضور اکرم ؐ کے امتی بن کر دکھائیں گے ۔ ہم ساری دنیا کیلئے رحمت بننے کی کوشش کریں گے جس طرح ہمارے آقا رحمت اللعلمین ؐہیں۔ اسی طرح سے ہم جشن میلاد مصطفی ﷺ منانے کے اہل قرار پائیں گے ۔ اسی طرح سے ہمارے خود کے حقیقی معنوں میں حضور اکرم ؐ کا امتی عملی ثبوت پیش کرپائیں گے ۔
بی آر ایس کا مستقبل
تلنگانہ راشٹرا سمیتی کوکے چندر شیکھر راؤ نے بالآخر بھارت راشٹرا سمیتی میں تبدیل کردیا ہے ۔ اس کی تیاریاں اور قیاس آرائیاں تو ویسے بھی کچھ عرصہ سے جاری تھیں۔ تاہم اس کو وقفہ وقفہ سے ٹالتے ہوئے کچھ وقت گذارا گیا ۔ اب جبکہ ٹی آر ایس کو بی آر ایس میں تبدیل کردیا گیا ہے تو اس کے عزائم و مقاصد کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ویسے تو ہر سیاسی جماعت عوام کو سبز باغ دکھانے سے گریز نہیں کرتی اور نت نئے دعوے کئے جاتے ہیں تاہم اس کے حقیقی عزائم اور مقاصد سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ٹی آر ایس نے اب تک اپنے قول وفعل سے کس حد تک خود کو مخلص ثابت کیا ہے ۔ خاص طور پر اقلیتوں کے معاملے میں حکومت کی کارکردگی کا جائزہے لینا چاہئے ۔ اقلیتوں سے اس کے وعدوں اور ان کی تکمیل کا تناسب دیکھنا چاہئے ۔ بی آر ایس کیلئے حالانکہ کچھ علاقائی جماعتوں کی رائے مثبت دکھائی دے رہی ہے اور وہ اس سے اتحاد کرنے کو بھی تیار نظر آتے ہیں تاہم حقیقی مسائل کا ابھی آغاز نہیں ہوا ہے ۔ جب الیکشن کمیشن سے نام کی تبدیلی کو منظوری مل جائے گی اور پارٹی کے اصل ایجنڈہ کا پتہ چل جائیگا اس وقت ہی اس تعلق سے کوئی تبصرہ کیا جاسکے گا ۔ فی الحال پارٹی کی کامیابی اور اس کے مستقبل کے تعلق سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ اس معاملے میں فی الحال انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اختیار کی جانی چاہئے ۔