میڈیا پر دوہرے معیارات

   

ملک میںیہ روایت چل پڑی ہے کہ ہر مسئلہ پر دوہرے معیارات اختیار کئے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر حکومت اور اس کے ہمنوا ادارے اور تنظیمیں اپنی سہولت کے اعتبار سے کوئی بھی موقف اختیار کرتے ہیں اور کسی کو بھی نشانہ بھی بنانے سے گریز نہیں کرتے ۔ خاص طور پر ملک میںمیڈیا کے تعلق سے دوہرے معیارات عام ہوگئے ہیں۔ میڈیا کے نام پر زر خرید چینلس کے تلوے چاٹنے والے ٹی وی اینکرس کی واہ واہی ہوتی ہے ۔ انہیں سروں پر بٹھایا جاتا ہے ۔ ان کے ذریعہ نفرت پھیلائی جاتی ہے ۔ ان کے ذریعہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے ۔ انہیںہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ کروڑ ہا روپئے انہیں فراہم کئے جاتے ہیں۔ اشتہارات میں انہیں ترجیح دی جاتی ہے ۔ ان کی جانب سے غلط اور بے بنیاد خبریں پھیلانے یا سماج میں نفرت کو ہوا دینے پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ انہیںمیڈیا کی آزادی کا نام دیتے ہوئے کھلی چھوٹ فراہم کی جاتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کی جانب سے کافی محنت ومشقت اور جستجو کے بعد اعلی تعلیم کے مواقع حاصل کئے جاتے ہیں اور یو پی ایس سی کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے تو متعصب اور فرقہ پرست طاقتوں کو یہ بھی ہضم نہیں ہوتا اور اسے یو پی ایس سی جہاد کا نام دیا جاتا ہے ۔ ایسے چینلس کے خلاف کارروائی کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی پہل نہیں کی جاتی ۔ کوئی اپیل کی جاتی ہے تو آزادی صحافت کی جھوٹی دہائی دیتے ہوئے انہیں کھلی چھوٹ دیدی جاتی ہے ۔ اس کے برخلاف اگر ملک کے ہی کسی چینل پر کوئی رپورٹ دکھائی جاتی ہے کوئی خلاصہ کیا جاتا ہے اور کوئی انکشاف کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف رائے ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اب بی بی سی کی جانب سے ایک ڈاکیومنٹری ریلیز کی گئی ہے تو اس پر ہندوستان میں مکمل امتنا عائد کرنے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی ۔ یہ درخواست حکومت کی ہمنوا تنظیم ہندو سینا کی جانب سے داخل کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ ملک میں مکمل سنسر شپ عائد نہیں کی جاسکتی ۔
متعصب اور فرقہ پرستانہ ذہنیت رکھنے والے افراد ہر معاملہ کو اپنے ہی نظریہ سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ وہ دوسروں پر بھی اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور اپنی رائے یا خیال پیش کرسکے ۔ ان طاقتوں کو اندیشہ ہے کہ اگر حقیقی صورتحال کو عوام کے سامنے پیش کردیا جائے تو ان کی قلعی کھل جائے گی ۔ وہ عوام میں بے وزن ہو کر رہ جائیں گے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ میڈیا گھرانوں کو بھی نشانہ بنانے اور ان کے معاملے میں دوہرے معیارات اختیار کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ بی بی سی نے جو ڈاکیومنٹری جاری کی ہے اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا ہر ایک کا اختیار ہے ۔ اس پر اپنی رائے بھی ضرور ظاہر کی جاسکتی ہے لیکن ایک ڈاکیومنٹری کی وجہ سے ساری نشریات ہی کو روک دینا مناسب نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس ڈاکیومنٹری کو ملک کیلئے مضر یا نقصان کا باعث قرار دیتے ہوئے بھی عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ محض ایک ڈاکیومنٹری کو ملک کیلئے مضر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ایسا کرنا در اصل اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اور اپنے عزائم پورے کرنے کیلئے ملک کے نام سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے ۔ ہندوستان ایک طاقتور ملک ہے ۔ ہندوستان کے عوام حب الوطن ہیں اور وہ اپنے ملک پر کوئی آنچ آنے نہیں دینگے ۔ اپنے ملک کے مفادات پر کوئی بھی شہری کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہیں کریگا تاہم اس طرح کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے کسی کو نشانہ بنانا بھی درست نہیں ہے ۔
ملک یا ملک کے مفادات کے نام پر فرضی تاثر پیش کرنا کسی بھی حال میں قوم پرستی نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کے ذریعہ حالات کا استحصال کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ میڈیا اداروں کے تعلق سے دوہرے معیارات اختیار کرتے ہوئے کسی پر لگام کسنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ در اصل سامراجی ذہنیت اور تنگ نظری کا ثبوت ہے ۔ ملک کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعہ اس طرح کی کوشش کو مسترد کردیا ہے ۔ آزادی صحافت کا جو نعرہ ہے وہ بھی اپنی سہولت سے اختیار نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی کسی کو محض اختلاف رائے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جانا چاہئے ۔ دوہرے معیارات کے ذریعہ ملک یا میڈیا کی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی ۔ اس معاملے میں سبھی کو حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔