ناموں کی تبدیلی پر عدالتی پھٹکار

   

کام انسان کا ہوتا ہے بڑا دنیا میں
نام کیا پوچھتے ہو، نام میں کیا رکھا ہے
ہندوستان میں شہروں اور ریلوے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کرنے کی ایک روایت چل پڑی ہے ۔ حکومت کی تائید و حمایت رکھنے والے گوشے وقفہ وقفہ سے ناموں کو بدلنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی ریاستی حکومتوں کی جانب سے بھی اپنے شہروں اور علاقوں کے نام بدلے جا رہے ہیں۔ جو نام اقلیتی نمائندگی کی عکاسی کرتے ہیں خاص طور پر ان کو نشانہ بناتے ہوئے نئے نام رکھے جا رہے ہیں اوریہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان شہروں اور علاقوں کے یہی نام قدیم زمانے میں ہوا کرتے تھے ۔ اس طرح کے دعوے محض زبانی جمع خرچ ہیں اور ان کا کوئی ٹھوس اور تاریخی ثبوت بھی دستیاب نہیں ہے ۔ اس سارے عمل میں یہ شبہات ہیں کہ صرف اقلیتی ناموں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کے تحت کام کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر اشونی کمار اپادھیائے نے باضابطہ ناموں کی تبدیلی کا کمیشن قائم کرنے کیلئے مفاد عامہ کے نام سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں داخل کی تھی ۔ سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر سماعت کے بعد عدالت نے اس پر بھی عملا پھٹکار لگائی ہے اور درخواست داخل کرنے کے مقصد پر سوال کیا ہے ۔ عدالت نے واضح کردیا کہ ملک کے حال اور مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماضی کے گڑھے نہیں کھودے جانے چاہئیں۔ عدالت نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے وہ مسائل ایک بار پھر موضوع بحث بن جائیں گے جن کا ابھرنا ملک کیلئے اچھا نہیں ہوسکتا اور اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوسکتی ہے ۔ آج کے دور میں ملک کو سب سے زیادہ ضرورت فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کی ہے ۔ سماج کے تمام طبقات کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصولوں پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے دوسرے کی رائے کا احترام کرنا بھی آج کے وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ایسے میں یقینی طور پر نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دینے سے گریز کیا جانا چاہئے تاہم کئی گوشے ایسے ہیں جو اختلافی مسائل اور نزاعات کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔
یہ ایسے لوگ ہیں جن کا نقطہ نظر یہی ہے کہ ان کے سیاسی مفادات کی تکمیل اسی حکمت عملی سے ممکن ہوسکتی ہے اور وہ اسی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ برسر اقتدار جماعت میںشامل رہتے ہوئے ملک اور ملک کے عوام کی ترقی کیلئے جدوجہد کرنے اور عوام کو جو مسائل آج کے دور میں درپیش ہیںانہیں حل کرنے پر توجہ کرنے کی بجائے ماضی کے اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی آج کے دور میں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ یہ ساری صورتحال ایسی ہے جس میںہر ایک کو اپنی ترجیحات واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ملک میں جو حالات پیدا کردئے گئے ہیں ان کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بڑی حد تک متاثر ہو کر رہ گئی ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور دوریاں عام بات ہوگئی ہیں۔ ایک دوسرے کے تعلق سے شبہات تقویت پاتے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصولوں پر زندگی گذارنے کے اصولوںکو فراموش کیا جا رہا ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ ہندوستان آج ایک اہم طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ ساری دنیا میں ہندوستان کی معاشی ترقی اور اس کی طاقت کا اعتراف ہونے لگا ہے ۔ ہندوستان سے ساری دنیا کو امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں۔ ہندوستان کی قائدانہ صلاحیتوں کا ہر کوئی معترف ہے اور دنیا کو امید ہے کہ آئندہ وقتوں میں ہندوستان عالمی قائد اور بڑی طاقت بن کر ابھرے گا ۔ اس کیلئے ملک میں اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
سپریم کورٹ کی رولنگ سے ان تمام گوشوں کو سبق لینے کی ضرورت ہے جو اختلافات کو زندہ رکھنے اور انہیں ہوا دینے کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تعلق سے نفرت کو عام کرنے کی بجائے فرقہ وارانہ یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دینا زیادہ ضروری ہے ۔ بے بنیاد دعووں اور دلائل کے ذریعہ ملک کے پرامن ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوششوں کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ تاریخ کو بحال کرنے کے نام پر سماج میں نفرت نہیں پھیلائی جاسکتی ۔ ملک اور ملک کے عوام کے حال اور مستقبل سے کوئی کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی کو اس کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ سبھی گوشوں کو یہ بات تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔