نریندر مودی حکومت کی 10بڑی ناکامیاں

   

( یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ نریندر مودی نے 2013ء میں جن موضوعات کے سہارے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ اقتدار کے ساتھ ہی وہی موضوعات حکومت کے خلاف سنگین خطرات ثابت ہوگئے )

سلمان خورشید اور محمد خان
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ جیسے ہی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر وزیراعظم نریندر مودی کی انتخابی مہمات کا موضوع صرف حکومت کے کارناموں کا گن گانا تھا اور بڑی مزے کی بات یہی ہے کہ وزیراعظم خود تشہیر سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں ، چنانچہ ایک پارلیمانی اطلاع کے انکشاف سے معلوم ہوا کہ حکومت نے ٹیکس دہندگان کی رقم سے تقریباً 4,880 کروڑ روپئے صرف ایسے ترقیاتی کاموں اور کارناموں کی تشہیرکیلئے خرچ کردیئے ۔ جس طرح سے ہم حکومت کے میعاد کے پانچویں سال میں داخل ہورہے ہیں تو ظاہر ہوا کہ حکومت نے کئی ایک تاریخی موقعوں کو اپنے ہاتھ سے گنوا دیا ۔ عوام کی جانب سے مودی کو انتخابات کا تاریخی تحفہ پوری اکثریت سے سونپا گیا تھا اور تین سال میں تیل کی قیمتوں سے گراوٹ سے وہ اگر چاہتے تو فائدہ اٹھاکر عوام کیلئے بے شمار اصلاحات کا کام کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اس بہترین موقع کو ہاتھ سے گنوا دیا اور بجائے اس کے قابل اعتناء ترجیحات پر زور دیا گیا اور ان میں بھی شفافیت کا فقدان تھا ۔ مودی حکومت کی کامیابیاں ویسے تو قابل مباحثہ ہیں لیکن یہاں پر دس بڑے غلط اور سنگین اقدامات کا ذکر کیا جارہا ہے ۔
1 ۔ کرنسی کی تبدیلی :۔ مودی حکومت کی ناکامیوں کی فہرست میں سب سے بڑا ناعاقبت اقدام کرنسی کی اچانک تبدیلی ہے جس کے باعث معیشت بڑے پیمانہ پر تباہی کا شکار ہوگئی اور یہ اقدام ایسا تھا کہیہخارجی ممالک کے بزنس اسکولز کا موضوع بحث بن گیا اور اس اقدام کے سارے مقاصد ناکام ہوگئے جیسے کہ دہشت گردوں کے فنڈز کو روکنا ،جعلی نوٹوں اور کالا دھن پر قابو پانا وغیرہ ، بجائے ان مقاصد کے یہ اقدام ملازمتوں کے مواقع کو ناپید کردیا ۔ مشہور ماہر معاشیات ارون کمار اور سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے تاثرات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک اس کے خوفناک اثرات سے باہر نہیں نکلے ہیں ۔
2۔ کسانوں سے دغابازی :۔ مودی کے دور حکومت میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ مودی کے آخری بجٹ میں کسانوں کیلئے قیمتوں میں پچاس فیصد امداد سے کسانوں کو کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا ، بلکہ بجائے امداد کے مودی حکومت نے غیر دانشمندانہ طور پر گیہوں اور دالوں کی درآمد کرنا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں مقامی اجناس کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ آگئی اور سونے پر سہاگہ 2013ء حصول اراضیات میں ترمیم کرتے ہوئے کسانوں کی زمینات کو بہ زور طاقت حاصل کرلیا گیا ۔ کسانوں نے مختلف النوع احتجاجات کے ذریعہ سے بی جے پی حکومت کو توجہ دلانے کی کوشش کی اور اس سال تین وقت بڑے پیمانے پر احتجاج اور مارچ کیا گیا ، یہاں تک کہ وہ اپنے خودکشی کرنے والے ساتھیوں کی نعشوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا تاکہ حکومت کوکچھ رحم آجائے ، جو کسان خودکشی کرلئے ان کے معصوم بچے پارلیمنٹ سے بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر پُرامن احتجاج نکالا لیکن بی جے پی کے ایک بھی قائد کو یہ توفیق حاصل نہیں ہوئی کہ وہ ان احتجاجیوں سے مل کر ان سے ہمدردی کااظہار کریں ۔
3۔ رافیل سودے بازی کی دوبارہ سوالیہ تجدید :۔ وزیراعظم اور ان کے حاشیہ برداروں نے خریدی کے شرائط و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہیوئے تین گناہ قیمت پر اس سودے بازی کی معاملت کی تجدید کردی ۔ جب اس بارے میں سوال اٹھایا گیا تو حکومت نے اپوزیشن پر تنقید شروع کردی اور کہا کہ یہ ایک رازدانہ معاملات کا افشاء ہے جس کی تردید صدر فرانس نے ایک ہندوستانی چیانل کو دوران انٹرویو سے بھی کردی ۔ رافیل سودے بازی میں مزید شکوک و شبہات اس وقت پیدا ہوگئے جبکہ ایک خانگی کمپنی کوجسے اس معاملہ میں دور دور تک کوئی بھی تجربہ حاصل نہیں ہے اس معاملت کا پارٹنر بنا دیا گیا ، وجہ محض وہ پارٹی وزیراعظم سے قربت رکھتی ہے ۔
4۔ میڈیا کو تابع دار بنا لینا :۔ حکومت کی جانب سے میڈیا کے عناصر کو اپنا غلام بنالیا گیا تاکہ وہ وزیراعظم اور صدر بی جے پی کی کسی بھی لغزش کو چاہے وہ جتنی بھی سنگین ہو منظر عام پر آنے سے روک دے ۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی چیانل اس صداقت کو منظر عام پر لانے کی کوشش کیا تو اس کو چوبیس گھنٹوں کیلئے تاریک کردیا گیا یا پھر اس کے رہائشی علاقہ میں چھاپہ مارا گیا یا پھر بعض دفعہ ایسی جرات کرنے والے صحافیوں کو یاتو پُراسرار طور پر غائب کردیا گیا یا پھر ان کو گوشہ گمنامی میں جانے کیلئے مجبور کردیا گیا ۔
5 ۔ اداروں کو کمزور بنا دینا :۔اس موجودہ حکومت کیلئے پارلیمنٹ ایک غیر سہولت بخش ادارہ ہے جو بجائے قوانین کو پاس کرنے کیلئے صرف آرڈیننس پاس کر کے ہی حکومتی کام کاج چلانا چاہتی ہے ۔ وزیراعظم شاذ و نادر ہی پارلیمنٹ میں حاضری دیتے ہیں اور اگر بالفرض ان کی حاضری ہو بھی جائے تو ان کی ساری توجہ انتخابی تقاریر یا پھر لیجسلیٹو ایجنڈہ کو وضع کرنے یا فلور کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دینے میں صرف ہوجاتا ہے ۔ لوک پال بل کو اس طرح بھلا دیا گیا کہ بالآخر ناراض سپریم کورٹ کو اس جانب توجہ دلانی پڑی ، ایک دلیر وزیراعلیٰ اقتدار پر آتے ہی پلک جھپکتے ہی اپنے خلاف دائر کئے جرائم کیس کو بند کردیتے ہیں ، دوران الیکشن غیر محسب دولت پر پابندی اور انتخابی شفافیت کا صرف وعدہ کیا جاتا ہے لیکن عمل ندارد ، سی بی آئی اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے آپس میں نبرد آزما ہے ، اس طرح کی نزاعات کی ایک طویل فہرست ہے ۔
6۔ سب سے بڑی ناکامی نفرت کا پرچار :۔دلت طبقہ اور اقلیتی کمیونٹی پر حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ان حملوں کی خصوصیت سے ریاستی حکومتوں کی سرپرستی ، مجرموں کی گلپوشی اور ان کی اموات میں بصد احترام شرکت ہے ۔ اس حکومت کی امتیازی خصوصیت ایک خاص کمیونٹی سے نفرت کا اظہار اور اس کو فروغ دینا ہے ، ایسے افراد کی وزیراعظم کی جانب سے بالواسطہ تائید حاصل ہے جس کے باعث ان کا برتاؤ نہایت ہی فرقہ واری اور بدسلوگی پر مبنی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے ۔
7 ۔ مسئلہ کشمیر سے غلط انداز سے نمٹنا :۔کشمیری عوام کو بقیہ ملک سے اجنبیت کا احساس دلانا ، یہ حکومت کا نمایاں کارنامہ ہے جس کی اہم وجہ اس مسئلہ سے غلط اندازمیں نمٹنا ہے ۔ 1996ء سے آج تک پہلی مرتبہ اننت ناگ میں ضمنی انتخابات کا انعقاد نہیں کیا گیا جس کی وجہ کشیدہ حالات میں آٹھ ماہ کا طویل کرفیو مقامی معیشت کو تہس نہس کردیا اور سب سے زیادہ افسوسناک بات بی جے پیکے ابتدائی تین سال میں فوجی جوانوں کی شہادت میں 72% فیصد اضافہ ہوا ۔ کشمیر کے مسئلہ کو جس نکمہ طریقہ سے نمٹا گیا اس کے لئے ایک علحدہ موضوع پر بحث کی گنجائش ہے ۔
8 ۔ ظالمانہ آدھار طریقہ کار اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی رازداری کا عدم تحفظ :موجودہ حکومت کئی ماہ سے سپریم کورٹ کے مباحثوں میں اس طرح الجھی ہوئی ہے کہ آیا شہریوں کی شخصی رازداری ایک بنیادی حق ہے اور شخصی نگرانی کو خواص کی نگرانی کا لبادہ اڑا کر اس پر مسلسل نظر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ آدھار کو دوسری خدمات جیسے ریلوے ٹکٹس سے لیکر اسکولوں میں داخلہ تک کیلئے ضروری قرار دینے کی غیر منطقی دلائل پیش کئے جارہے ہیں ۔ بالآخر سپریم کورٹ نے اس نزاعی معاملہ میں صداقت اور اس کے زندگی کے شعبوں میں غیر ضروری مداخلت کے اختیارات پر ضرب لگادی ۔
9 ۔ ایشیاء میں ہندوستان کے اثر و رسوخ کا انحطاط :ایک چھوٹا سا جزیرہ مالدیپ بھی ہندوستان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ سری لنکا کی طرح نیپال کوبھی چین سے تعلقات استوار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔ پانچ سال قبل جزیرہ نما میں ہندوستان کا بہت ہی خاص اثر و رسوخ پایا جاتا تھا اور ان پڑوسی ممالک کے معاملات میں ہندوستان کی صدا خاص اثر رکھا کرتی تھی، اس روایتی اثر و رسوخ میں زوال آگیا کیونکہ خارجہ پالیسی کے بے سمت مقاصد اور عدم توجہ اس کی ایک وجہ ہے اور صرف وزیراعظم کے شخصی عکاسی کو فروغ دینے کی دانستہ کوشش کی گئی ۔
10 ۔ ملازمتیں جی ڈی پی کی گنتی کے نمبرات میں اُلٹ پھیر اور مصنوعی طریقہ کار کے ذریعے سے اس کوزیادہ ظاہر کرنے کے سبب سرمایہ بیرون ملک چلا گیا جس کی نظیر سابق میں کہیں نہیں ملتی جس کے سبب کمپنیاں خارجی قرض دہندوں کے جنگل میں پھنس گئے جس کا بری طرح سے اثر ملازمتوں پر پڑنے لگا اور بالآخر حکومت ملازمتوں کی فراہمی میں بے بس دکھائی دینے لگی ۔
یوں تو یہ فہرست بہت طویل ہے لیکن مندرجہ بالا مختصر سے عناصر حکومت کی مایوسانہ کارکردگی کا بہترین مظہر ہے ۔ کئی قرضدار عوامی رقومات کو لوٹ کر دن دھاڑے ہندوستان سے فرار ہوگئے اور پھر تیل اور ایل پی جی گیس کی قیمتیں آسمان سے جھونے لگیں ۔ ان حالات نے ایک عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ۔