نظامس میوزیم میں بے مثال خصوصیات اور کعبہ شریف کے تبرکات

   

غلام محمد (چیف سکیورٹی آفیسر)

حضور نظام میر عثمان علی خاں بہادر آصف جاہ سابع کی جشن سلور جوبلی کے موقع پر محصلہ تحائف کی یادگاریں ایچ ای ایچ دی نظامس میوزیم، پرانی حویلی، حیدرآباد میں محفوظ ہیں۔ یہ تحائف نہ صرف سونے چاندی کے ہیں بلکہ بیش قیمت ہیرے جواہرات سے مرصع ہیں جو مملکت کی ہمہ جہتی ترقیات پر انہیں ملک و بیرون ملک کے حکمرانوں، نوابین، امرا، عظام، رعایا اور نظم و نسق کے مختلف شعبہ جات کے ارباب مجاز نے خراج تحسین اور سپاس گذاری کیلئے پیش کئے۔ عمومی طور پر تحائف طلائی و نقروی ہیں اور اپنی آئش و تزئینی میں یکتائے زمانہ میں لیکن ان تحائف میں کچھ ایسے نادر و نایاب مذہبی تبرکات بھی شامل ہیں جو حرمین شریفین کا حصہ رہے ہیں اور اپنی قدامت اور مذہبی تشخص کے سبب ان تمام سے بالاتر ہیں۔ یہ جلیل القدر تحائف خادمین حرمین شریفین کی جانب سے آصفجاہی سلاطین کو عطا ہوئے۔ میری مراد کعبۃ اللہ شریف کے اس بڑے پردے سے ہے جو کعبہ شریف کے دروازے ’’باب توبہ‘‘ کا ہے جو تقریباً 100 سال قدیم ہے اور جشن سلور جوبلی کے موقع پر آصف جاہ سابع کو عطا ہوا تھا۔ دوسرا پردہ جو 150 سال قدیم ہے، وہ آصف جاہ خامس افضل الدولہ بہادر کو عطا ہوا تھا جبکہ غلاف کعبہ کا 300 سالہ قدیم حصہ آصف جاہی اولؒ کے عہد سے منسوب ہے۔ حرم شریف کے یہ تین مقدس تبرکات ناظرین کی روحانی تسکین کا باعث ہیں۔ جو آصفجاہی سلاطین کو مختلف مواقع پر حرمین شریفین سے حاصل ہوئے ہیں۔ ان تبرکات میں اہم ترین کعبۃ اللہ شریف کے دروازہ باب توبہ کا پردہ ہے جو سب سے بڑا اور مستطیل ہے۔ اس کی لمبائی 209.9 سینٹی میٹر اور چوڑائی 53 سینٹی میٹر ہے۔ یہ پردہ حضور نظام میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع کو ان کی سلور جوبلی کے موقع پر عطا ہوا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عہد آصف جاہ سابع میں سرنظامت جنگ بہادر نے جو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ وزیر سیاسیات کے عہدہ پر فائز رہے۔ اپنے آپ کو حرمین شریفین کیلئے وقف کردیا تھا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک حرمین شریفین میں روشنی کیلئے کیروسین کے قنادیل اور شمع دان استعمال ہوتے تھے۔ 1935ء میں نظامت جنگ نے اہل حیدرآباد سے اپیل کی کہ حرمین شریفین میں برقی قمقمے، پنکھے، لنترہانڈیاں، جنریٹر اور برقی سربراہی کیلئے 75 ہزار کے مالیہ کی ضرورت ہے جس پر حضور نظام نے 35,000 کی رقم سلور جوبلی تقاریب کی مد سے اس مقصد کیلئے پیش کی۔ دوسرا بڑا عطیہ خان بہادر علاء الدین اور بقیہ رقم اہل حیدرآباد نے روانہ کی۔ آج بھی مسجد نبویؐ اور کعبۃ اللہ شریف کے وہ رواق جنہیں آصف سابع کے سمدھی خلیفۃ المسلمین سلطان عبدالمجید نے تعمیر کئے تھے، جوں کے توں برقرار ہیں اور جو رواقِ مطاف کی توسیع کیلئے کعبۃ اللہ میں شہید کئے جارہے ہیں، انہیں سعودی حکومت محفوظ کررہی ہے۔ یہ برقی تنصیبات، برقی قمقمے لنتر ہانڈیاں، فانوس، اور برقی پنکھے حضور نظام اور اہل حیدرآباد کی حرمین شریفین سے دلی وابستگی کی گواہی دیتے ہیں۔ حرمین شریفین کیلئے اس نذرانہ کی پیشکشی پر خادمین حرمین شریفین نے حضور نظام میر عثمان علی خاں کو یہ مقدس پردہ کا تبرک عطا کیا۔ ریشم بافی کے اس عمدہ پردہ پر خط ثلث میں زربقت سے کشیدہ کاری بہت ہی نفاست سے انجام دی گئی ہے۔ اس پردہ پر قرآن مجید کی آیات ثبت ہیں۔ کعبۃ اللہ کے دروازہ کا ایک اور پردہ بھی نظامس میوزیم میں ناظرین کی توجہ کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ یہ متبرک پردہ اس سے کسی قدر چھوٹا ہے اور 150 سال قدیم ہے جو عہد آصف جاہ خامس افضل الدولہ بہادر کو اس وقت موصول ہوا جب انہوں نے کعبۃ اللہ شریف میں شامیہ کے مقام پر چار منزلہ رباط اور مسجد نبویؐ میں موجود باب السلام کے مقام پر افضل الدولہ کے نام کی رباطیں تعمیر کرائیں۔ اس پردہ کی لمبائی 63 سینٹی میٹر ، چوڑائی 36.9 سینٹی میٹر کا ہے اور ریشم بافی کا نایاب نمونہ ہے، اس پر بھی خط ثلث میں زربقت سے کشیدہ کاری عمدگی سے انجام دی گئی ہے۔ پارچہ بافی اور کشیدہ کاری صنعت کی بہترین مثال ہے اور فنکاروں کی ماہرانہ صلاحیتوں کا شاہکار ہے۔ کعبۃ شریف کے اس پردہ پر آیت الکرسی مزین ہیں۔ نظامس میوزیم میں کعبۃ اللہ شریف کے غلاف مبارک کا بھی ایک بہت قدیم نسخہ جو 300 سالہ قدیم ہے، غالباً آصف جاہ اول قمرالدین خاں کے عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ نظامس میوزیم کا اہم ترین اثاثہ ہے۔ کعبۃ اللہ کے غلاف مبارک کے اس مربع حصہ پر اللہ رب العزت کے چار صفاتی اسماء یاحنان ، یامنان ،یادیان، یا سبحان خط ثلث میں مزین ہیں۔ زربقت کی کشیدہ کاری سے مرصع یہ غلاف مبارک ناظرین کی آنکھوں کو خیرہ اور دل کو سکون بخشتا ہے۔ حرمین شریفین کے غلاف مبارک تو کئی ایک مخزونوں میں موجود ہیں، لیکن باب توبہ کے پردے صرف تین میوزیمس میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک تو توپ قافی پیالیس استنبول ترکی دوسرے حاجی رجب میوزیم کویت اور تیسرے ایچ دی ایچ دی نظامس میوزیم پرانی حویلی، حیدرآباد میں عام زیارت کیلئے موجود ہے۔ اہل حیدرآباد بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں کہ اس سرزمین پر آصفجاہی سلاطین نے ایسے اہم اسلامی ورثہ کو اپنی رعایا کی زیارت کے لئے محفوظ کیا ہے۔
نظامس میوزیم میں مسجد نبویؐ کا ایک دیدہ زیب چاندی کا ماڈل بھی موجود ہے جسے علاقہ سکندرآباد اور بلارم کے عوام نے عوامی عطیات سے تیار کرکے حضور نظام میر عثمان علی خاں بہادر کو سلور جوبلی تقاریب 1937ء میں پیش کیا تھا۔ یہ ماڈل آصف سابع کے سمدھی خلیفۃ المسلمین سلطان عبدالمجید کے عہد تک کی تعمیرات کی عکاسی کرتا ہے اور اہل حیدرآباد کی جانب سے جو برقی تنصیبات انجام دی گئی تھیں، اس کو بھی پیش کرتا ہے۔ شاہ سعود نے 1964ء میں جب حیدرآباد کا دورہ کیا تو حضور نظام سے ملاقات کی اور سونے کی نیام والی سیف (تلوار) اور سعودی عرب کا پیراہن انہیں پیش کیا، یہ سیف میوزیم میں دیکھی جاسکتی ہے۔
بہرحال ایچ ای ایچ دی نظامس میوزیم موقوعہ پرانی حویلی حیدرآباد نہ صرف حیدرآباد بلکہ ملک و بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو کعبہ شریف اور مسجد نبویؐ کے ان اہم تبرکات کی بھی زیارت کرتا ہے۔٭