نعت گوئی کے اِرتقاء میں علمائے جامعہ نظامیہ کا حصہ

   

سید امین الدین بغدادی نظامی

’’نعت‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کا مادہ ن ، ع ، ت ہے یہ لفظ عام طورپر وصف اور بیان کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ نعت کے لغوی معنی وصف ، صفت ، جوہر ، تعریف ، خاصیت ، گن اور خوبی کے ہیں لیکن اصطلاح میں نبی اکرمؐ کے محامد و محاسن اور حسن جمال کے بیان کے لئے مخصوص ہے ۔ نیز یہ صنف عربی سے فارسی اور فارسی سے اُردو تک پہنچتے پہنچتے ایک خاص مفہوم سے وابستہ ہوگیا یعنی ایسے اشعار بلکہ (تحریریں) بھی جن میں حضور اکرمؐ کی تعریف و توصیف ہو انھیں نعت کہا جاتا ہے ۔ ( نعت گوئی اور اُس کے آداب )
نعت گوئی کا اصول امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شہرہ آفاق قصیدہ بردہ میں بتلاتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’دع ما ادعتہ النصاری فی نبیھم
واحکم بما شئت مدحا فیہ واحتکم ‘‘
ترجمہ : ’’یہود و نصاری نے اپنے نبی کے بارے میں جو دعویٰ کیا تھا اس کو چھوڑکر آپ ؐ کے بارے میں جتنی چاہے مدح کر‘‘۔
اس شعر کو نعت گوئی کا اصول بتلایا گیا ہے ۔
نعت کا لفظ نبی اکرم ﷺ کے وصف میں سب سے پہلے خود نبی اکرم ﷺ نے ہی استعمال کیا تاہم احادیث شریفہ سے یہ سراغ ملتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد یہ لفظ آپ کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے استعمال کیا ۔ اس خیال کا مرجع شمائل ترمذی کی وہ حدیث شریف ہے جو ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے ’’جو آپؐ کو پہلی دفعہ دیکھتا ہے اس پر آپؐ کی ہیبت طاری ہوجاتی ہے آپؐ سے جس کے تعلقات و رابطہ جڑجائے وہ آپؐ سے محبت ہے اور آپؐ کا وصف بیان کرنیوالا کہتا ہے کہ میں آپؐ سے پہلے نہ آپ ؐ کے بعد آپؐ جیسا کوئی دیکھا ہے ‘‘(جامع ترمذی)
آپ کے ظاہری طورپر دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جب اسلام کا سورج عرب سے باہر جلوہ فگن ہوا تو اس سے بے شمار ممالک نورِ اِسلام سے منور ہوگئے ۔ قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کی محبت و عقیدت بھی دلوں میں جاگزیں ہوتی گئی اور ہر زبان کے شاعروں نے دلآویز نعتیں لکھیں اس طرح نعت رسول ﷺ جُو بہ جُو ، دریا بہ دریا اور یم بہ یم بساط عالم پر چھاگئی ۔
عرب شعراء کے تتبع میں دیگر زبانوں بالخصوص اردو میں نعتیہ قصائد اور نعتیں کہی گئیں ۔ اس روئے زمین پر اردو زبان میں حضور ﷺ کی مدحت کرنے والوں کی لامتناہی فہرست ہے جن میں سے چند ملاحظہ ہوں : حضرت شیخ الاسلام امام محمد انواراللہ فاروقی ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں ، مولانا حسن رضا بریلوی ، نواب میر عثمان علی خاں ، امیر مینائی ، علامہ اقبالؔ ، خواجہ بیدمؔ وارثی ، مولانا کوثرؔ نیازی ، عبدالستار نیازی ، علامہ شایقؔ حیدرآبادی ، بیکلؔ اُتساہی ، پیر مہرعلی شاہ ، الطاف حسین حالیؔ ، ظفر علی خان ، ولی دکنی قابل ذکر ہیں۔
نعت گوئی کے ارتقاء میں علمائے جامعہ نظامیہ نے اہم کردار نبھایا ۔ جامعہ کی مردم خیز سرزمین سے کئی نامور بلند پایہ اور خوش فکر نعت خوانوں نے ہر دور میں جنم لیا اور اپنی گراں قدر سخنوری کے ذریعہ نہ صرف نعتیہ شاعری کے فن کو فروغ دیا بلکہ عامۃ المسلمین کے قلوب کو عشق رسول سے سرشار کرکے ان میں نعت پڑھنے پڑھانے اور خوش الحانی کے ساتھ سننے سنانے کا جذبہ اشتیاق پیدا کیا ۔ جامعہ نظامیہ عالمِ اسلام کی مشہور و قدیم اسلامی دانشگاہ ہے۔ جامعہ نظامیہ نے اردو شاعری کے اکثر اصناف سخن میں اپنے انمول نقوش ثبت کئے لیکن صنف نعت کے ارتقاء میں اس کی اشتراکیت اپنے میں ایک مثال رکھتی ہے :
نعت گوئی کے ارتقاء میں جن علمائے جامعہ نظامیہ نے حصہ لیا ان میں سے چند یہ ہیں : ۱) حضرت شیخ الاسلام امام محمد انواراﷲ فاروقی ؒ ۲) حضرت عبدالقدیر حسرتؔ صدیقی ؒ، ۳) حضرت سید محمد بادشاہ حسینی لئیقؔ ؒ ، ۴) حکیم بہاء الدین صفیؔ اورنگ آبادیؒ ، ۵) سید احمد حسین امجدؔ حیدرآبادیؒ ۶) حضرت شیخین احمد کاملؔ شطاریؒ ، ۷) حضرت یحییٰ حسینی قدر ؔعریضی، ۸) حضرت سید شاہ اعظم علی صوفی، ۹) عبدالخالق حیرت نظامی ، ۱۰) افسرالحق دہلوی، ۱۱) سید عطاء اللہ حسینی قدسیؔ ، ۱۲) اوجؔ یعقوبی ؒ ، ۱۳) مفتی اشرف علی اشرفؔ ، ۱۴) سید صادق محی الدین فہیمؔ ، ۱۵) شمس الدین زمان ، ۱۶) سید محی الدین روحیؔ ، ۱۷) سید ضیاء الدین نقشبندی ، ۱۸) وجیہہ اﷲ سبحانی وجیہہؔ ، ۱۹) بہبود علی صفیؔ ، ۲۰) نوید افروز نویدؔ شامل ہیں ۔
شیخ الاسلام امام محمد انواراﷲ فاروقی فضیلت جنگ ؒ: نعت گوئی کے ارتقاء میں بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام کا نام سرفہرست ہے ۔ آپ کا تخلص انوارؔ ہے ۔ شیخ الاسلام ایک بہترین نازک خیالی نعت گو تھے۔ آپ عرب کے مشہور مقولہ ’’الشاعر یولد ولا یصنع ‘‘کے مصداق تھے آپ کا مجموعہ کلام ’’شمیم الانوار اور خدا کی قدرت کے نام سے زیور طبع سے آراستہ ہے اور انوار احمدی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ آپؒ کی نعت کا ہر ہر مصرع عشق رسول ﷺ سے سرشار ہے جو بھی اس کو پڑھتا یا سنتا ہے اس کے دل میں عشق رسولؐ رچ بس جاتی ہے ۔اردو فارسی اور عربی نعتوں میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا ۔ آپ کی نعت میں کلام کی برجستگی محاوارات ، ضرب الامثال عشق کی سرمستی تصوف کی چاشنی روح کی بیداری ، فکر و نظر کا فروغ یہ تمام چیزیں آپ کی نعت کے نمایاں اوصاف ہیں ۔ ذیل میں حضرت کے چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں :
دیکھا سب کچھ بہ یقین جس نے مدینہ دیکھا
دیں کا ملجا اور ایمان کا ماوا دیکھا
ایک حالت پے کوئی چیز یہاں رہتی نہیں
سیکڑوں رنگ زمانہ کو بدلتا دیکھا
مولانا عبدالقدیر صدیقیؒحسرتؔ: آپ کا تخلص حسرتؔہے ، آپ حیدرآباد کے بڑے نامور صوفی شاعر تھے ۔ آپ کے کلام میں ادبی لطافت کے علاوہ پند و نصائح اور عشق رسولؐ بھی پایا جاتا ہے۔ آپ کا کلام زبان زد خاص و عام ہے ۔ علمی کمالات کے پیش نظر آپ کو ’بحرالعلوم‘ کا خطاب دیا گیا ۔ آپ نے اردو شاعری کی مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ آپ نے نعت کے ارتقاء میں کوئی تشنگی باقی نہیں رکھی ۔ آپؒ کی نعت کی خصوصیات میں فکر کی بلندی ، الفاظ کی چست بندش سادہ بیانی الفاظ کی روانی بلند تخیلات اور شریعت و طریقت کا امتزاج شامل ہے۔ چند اشعار پیش ہیں :
تم پہ میں جان سے قربان رسول عربی
تم میری جان کی ہو جان رسول عربی
ساتھ لیجائیے حسرتؔ کو جو ہو وقت اخیر
اتنا فرمائیے احسان رسول عربی
حضرت سید محمد بادشاہ حسینی لئیقؔؒ: سیدالشیوخ حضرت علامہ حافظ سید محمد عمر الحسینی قادری کے فرزند اکبر ہیں ، آپ کا تخلص لئیق تھا۔ آپ جامعہ نظامیہ کے فاضل اجل ، مکہ مسجد کے واعظ بے بدل تھے وہیں ذوق شعر و سخن میں بھی بے نظیر تھے ۔ آپ کا نعتیہ کلام عشق رسول اہلبیت اطہار ، صحابہ اخیار کی محبت سے لبریز ہے ؎
نہیں اب آپ کی فرقت کا یارا یا رسول اﷲ
کرم فرمائیں ہم پر خدارا یا رسول اﷲ
اگرچہ بارہا دیکھا مگر نادیدہ ہوں پھر بھی
ہے دلکش کس قدر روضہ تمہارا یا رسول اﷲ
صوفی الاعظم سید احمد حسین امجدؔ حیدرآبادیؒ: آپ شعرو ادب کی دنیا میں ’’رباعیات کے شہنشاہ‘‘ تسلیم کئے جاتے ہیں ۔ جامعہ نظامیہ کے فیض یافتہ زبردست باکمال صاحب فن تھے ۔ جامعہ کے اولین دور کے شعراء اور ادباء میں آپ بلند مقام کے حامل ہیں ۔ چند اشعار پیش ہیں ؎
یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
کوئی تم سا نظر نہیں آتا
ڈھونڈتی ہے جسے میری آنکھیں
وہ تماشہ نظر نہیں آتا
جو نظر آتے ہیں نہیں اپنے
جو ہے اپنا نظر نہیں آتا
زیرسایہ ہوں اُس کے میں امجدؔ
جس کا سایہ نظر نہیں آتا
حکیم محمد بہاء الدین علی صدیقی صفیؔ اورنگ آبادی ؒ: آپ جامعہ نظامیہ کے قابل فخر سپوتوں میں سے ایک ہیں ۔ آپ کا تخلص صفیؔ اور لقب ’’امام المحاورات‘‘ ہے ۔ چند اشعار پیش ہیں ؎
خدا کو ہم نے پہچانا خدا ہے
محمدؐ یہ تصدق آپ کا ہے
سرمحشر یہ کیسا ماجرا ہے
جسے دیکھو تم ہی کو دیکھتا ہے
تمہارا اُمتی بندہ خدا کا
میرا دونوں طرف سے بھی بھلا ہے
صفیؔ کی آبرو ہے آپ کے ہاتھ
برا ہے یا بھلا ہے آپ کا ہے
مذکورہ بالا علمائے جامعہ نظامیہ کے نعت گو شعراء کے علاوہ اور بھی کئی ایک نظامی نعت گو شعراء موجود ہیں جو شب و روز نعت گوئی کی ارتقاء میں ہمہ تن مصروف ہیں مضمون کی طوالت کے پیش نظر انہی چند ناموں پر اکتفاء کیا گیاہے ؎
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کیلئے