نفرت انگیز جرائم ‘سپریم کورٹ کا تبصرہ

   

ملک میں نفرت پر مبنی جرائم میں لگاتار اضافہ نے ہر ذی شعور اور صحیح العقل فرد کو تشویش کا شکار کردیا ہے ۔ سماج میں نفرتوں کو ہوا دیتے ہوئے ماحول کو اس حد تک بگاڑ دیا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہم کو یقینی بنانے کی بجائے ایک دوسرے کے تعلق سے اندیشوں کا شکار ہو رہے ہیں اور انہیں حملوںکا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ گذشتہ آٹھ سال کے دوران ملک میں جو ماحول پیدا کردیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں نفرت پر مبنی جرائم کے بے شمار واقعات پیش آئے ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوںمیں ہجومی تشدد کے ذریعہ کئی بے گناہ اور معصوم افراد کو بے بنیاد الزامات پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ۔ اگر ان کے خلاف الزامات درست بھی تب بھی کسی کو یہ اختیار نہیں کہ انہیں موت کی نیند سلادیا جائے ۔ اگر واقعی کسی نے جرم کیا بھی ہے تو پولیس کی ذمہ داری ہے کہ اس کے خلاف مقدمہ درج کرے ۔ گرفتار کرے اور عدالت میںپیش کردیا جائے ۔ قانون کے مطابق عدالتیں کسی کے بھی مجرم ہونے یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کرسکتی ہے اور صرف عدالتوںکو ہی اس بات کا اختیار حاصل ہے ۔ کسی اور دستوری ادارہ کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنے طور پر سزا سنائے اور موت کے گھاٹ اتار دے ۔ یہاں تو عوام قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور حیرت اس بات پر ہے کہ پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں قانون کی دھجیاں اڑانے اور قتل و غارت گری کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے اور رانہیں جیل بھیجنے کی بجائے متاثرین اور مہلوکین کے خلاف مقدمات درج کر رہے ہیں۔ انہیں جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ ایک نفرت پر مبنی سوچ کا نتیجہ ہے ۔ عوام کے ذہنوں کو انتہائی پراگندہ کردیا گیا ہے ۔پولیس فورس میں بھی متعصب ذہنیت عام ہوتی چلی گئی ہے ۔ پولیس عہدیدار ملزمین اور مجرمین کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں قانون کے شکنجہ سے بچانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے ہیں اور وہ جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ملک کی مختلف عدالتوں اور خاص طور پر سپریم کورٹ نے ایک سے زائد مواقع پر اس طرح کے جرائم پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا ۔ کل بھی سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ ایک سکیولر ملک میں نفرت پر مبنی جرائم کی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا او رنہ ہی اس کو برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے واقعات کا تدارک کرنے اقدامات کرے ۔ ماضی میں عدالتوں نے یہ بھی واضح کیا تھا پولیس کی جانب سے اس طرح کے عناصر کے خلاف کارروائی نہ کیا جانا بھی حیرت انگیز ہے ۔ عدالتوں کی یہ رائے بھی رہی کہ جو عہدیدار اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے انہیں بھی تحقیقات کا نشانہ بنانا چاہئے او ران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے ۔ جب تک اس طرح کے عہدیداروں کو جوابدہ بنایا نہیں جاتا اس وقت تک اس طرح کے حالات کے تبدیل ہونے کی امید کرنا فضول ہی کہا جاسکتا ہے ۔ جو عہدیدار اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتے اور عمدا غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں خدمات سے بھی علیحدہ کیا جاسکتا ہے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے جوابدہ بنایا جاسکتا ہے ۔ چند عہدیداروں کے خلاف اگر اس طرح کی کارروائی کی جائے تواس سے دوسروں کیلئے مثال بن سکتی ہے اور وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے آگے آسکتے ہیں۔ اس طرح کے عہدیدارو ںکو سیاسی سرپرستی حاصل رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنے فرائض سے نظرے چرا رہے ہیں۔
عدالتوں ںنے کئی مرتبہ واضح کیا ہے کہ سیاسی سرپرستی ہمیشہ رہنے والی شئے نہیں ہے ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں پولیس اور نفاذ قانون کی دوسری ایجنسیوں کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے ۔ حکومت کو بھی اس معاملے میں سرگرم ہونے کی ضرورت ہے اور ملک کے قانون اور دستور پر عمل آوری کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ ملک کے سکیولر کردار کو برقرار رکھنے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہونگے ۔ پولیس عہدیداروںکو جوابدہ بنانا ہوگا ۔ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت مذہبی بنیادوںپر نفرتوں کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ سماج میں نفرتیں گھولنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہونچانا چاہئے ۔ اسی طرح سے ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔