!نماز کے خلاف بھی مہم

   


ملک بھر میں نفرت انگیز مہم کے اثرات ہر شئے پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہر مسئلہ کو مذہبی تعصب کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ہر مسئلہ کو ایک مخصوص سوچ کے ساتھ دیکھتے ہوئے ماحول کو خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جا رہی ہے ۔ چاہے حجاب کا مسئلہ ہو یا پھر حلال کا مسئلہ ہو ۔ چاہے مسجد کا مسئلہ ہو یا پھر نماز کا مسئلہ ہو ۔ ہر مسئلہ کو مذہبی تعصب کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں فرقہ پرست طاقتوں کو نماز سے مسئلہ پیدا ہونے لگا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کہیں کوئی نماز ادا کرتے نظر آئے تو اس کے خلاف بھی ایک مسئلہ پیدا کیا جا رہا ہے ۔ رواداری اور بھائی چارہ کے ماحول کو یکسر ختم کردیا گیا ہے ۔ ٹی وی چینلوں کے ذریعہ سے عوام کے ذہنوں میں جو نفرت پیدا کی گئی تھی وہ اب اپنے عروج پر پہونچنے لگی ہے ۔ لوگ ایک دوسرے کے تعلق سے شدید نفرتوں کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بیمار ذہنیت کو ظاہر کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ہریانہ میں ایک کھلے مقام پر نماز کی ادائیگی پر اعتراض کرتے ہوئے ماحول خراب کیا گیا تھا ۔ اسی طرح لکھنو کے لو لو مال میں نماز کی ادائیگی پر ہندوتوا گروپس نے اعتراض کرتے ہوئے ہنگامہ کھڑا کردیا ۔ مدھیہ پردیش کے ایک مال میں جب کچھ ملازمین نماز ادا کر رہے تھے اس پر بھی اعتراض کیا گیا ۔ اعتراض کرنے والے محض اپنی فرقہ پرستی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں حالانکہ انہیں ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ اگر کہیں کوئی کسی مال میں نماز ادا کرتا ہے اور مال کے انتظامیہ کی جانب سے اسے اجازت ہوتی ہے تو پھر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ اب اترپردیش کے ایک دواخانہ میں ایک مریض کے ساتھ آئی ہوئی تیمار دار خاتون کے نماز ادا کرنے پر ہنگامہ کیا جا رہا ہے ۔ خاتون کا نماز ادا کرتے ہوئے ویڈیو وائرل کردیا گیا اور دواخانہ نے اس طرح کی ’’ سرگرمی ‘‘ کے خلاف کارروائی کا اراردہ ظاہر کیا ہے تو کچھ گوشوں کی جانب سے مزید کارروائی پر زور دیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ نماز کی ادائیگی سے کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ کہیں کسی فرد یا گروپ کے نماز ادا کردینے سے کسی اور کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔
ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔ یہاں بے شمار مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں۔یہاں تہوار اور عبادتوں کے مسئلہ میں بھی لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں ماحول کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی جس کے اثرات اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ مسلمان بمشکل چند منٹ میں اپنی نماز مکمل کرلیتے ہیں۔ دیگرا بنائے وطن کا جہاں تک سوال ہے ان کے تہواروں کے موقع پر بھی کئی عوامی مقامات پر مذہبی رسوم ادا کی جاتی ہیں لیکن اس پر کبھی کسی گروپ نے اعتراض نہیں کیا ہے ۔ ہندوستان ایک رواداری والا ملک ہے ۔ یہاں آپسی بھائی چارہ کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ عیدوں اور تہواروں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ حصہ لیتے ہیں ۔ کبھی کسی کو ایک دوسرے کی عبادتوں یا تہواروں وغیرہ سے کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا ۔ حالیہ عرصہ میں اس طرح کی ذہنیت کو جس طرح سے فروغ دیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں اس طرح کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے ۔ ملک میں کسی دوسرے کے مذہبی عقائد کو مجروح کئے بغیر ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری وجہ سے کسی اور کے مذہبی جذبات مجروح ہونے نہ پائیں اور نہ ہی ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہو ۔ ایسے میں نماز کی ادائیگی پر مختلف گوشوں کی جانب سے جس طرح کے اعتراضات کئے جا رہے ہیں وہ افسوسناک ہیں اور ایسا کرنے سے سبھی کو گریز کیا جانا چاہئے ۔
اترپردیش میں گذشتہ مہینے ایک گھر میں اجتماعی نماز کی ادائیگی پر بھی اعتراض کیا گیا تھا ۔ ابتداء میں مقدمہ درج کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم بعد میں مقدمہ واپس لے لیا گیا ۔ یہ سب کچھ ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کی کوششیں ہیں اور مخصوص گروپس کی جانب سے ایسا کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا اور سوشیل میڈیا پر بھی اس طرح کی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر ایک کو اپنے مذہبی رسوم ادا کرنے کے حق سے محروم نہ کیا جائے اور غیر ضروری ایک دوسرے کے خلاف اعتراضات کرتے ہوئے فرقہ پرستی کو ہوا دینے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔