نواز شریف وزارت عظمیٰ کیلئے موزوں نہیں صدارتی انتخاب لڑیں

,

   

پاکستان مسلم لیگ ۔ ن کے سینیٹر مشاہد حسین کا مشورہ ۔ قومی حکومت میں سب کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت پر زور

لاہور: پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل ۔ این) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے پارٹی سربراہ نواز شریف کو صدارتی عہدے کیلئے مقابلہ کرنے کا یہ کہتے ہوئے مشورہ دیا کہ موجودہ ‘ہائبرڈ پلس نظام میں وہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے موزوں نہیں ہونگے ۔دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے خانگی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، زمینی حقیت اور میاں نواز شریف کی شخصیت کے پیش نظراور ملک کی خاطر میں انہیں وزیر اعظم کے عہدے کیلئے دعوی پیش کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ مشاہد نے کہا کہ اگر وہ چوتھی بار وزیر اعظم بن گئے تو کیا ہوگا؟ کیا ان کا نام گنیز ورلڈ ریکارڈ میں درج ہو گا یا انہیں اولمپک میڈل ملے گا؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں دوبارہ وزارت عظمیٰ عہدے سے بے دخل ہونا پڑے ، بلکہ انہیں ملک کا سربراہ (یعنی) فوج کا سپریم کمانڈر ہونا چاہیے ۔ یہ ان کے ، ان کی پارٹی، ملک اور جمہوریت کے مفاد میں بہتر ہوگا۔سینیٹر نے کہا کہ ملک نے گزشتہ چھ برسوں میں چھ وزرائے اعظم دیکھے ہیں جن میں سے تین جیل گئے ۔ انہوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ پارٹی کے کسی اور لیڈر کو وزیراعظم بننے کا موقع دیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کہوں گا کہ ایک قومی حکومت ہونی چاہیے کیونکہ میرا اندازہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں کوئی بھی لیڈر سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا مدر آف آل ڈیل موثر ہے ، مشاہد حسین نے کہا کہ کچھ چیزیں واضح ہیں۔ آپ انہیں اندر لاتے ہیں اور پھر انہیں باہر کردیتے ہیں۔ ضرورت پر آپ ان سے ڈیل بھی کرلیتے ہیں۔سینیٹر نے کہا کہ وہ لڑتے ہیں لیکن پھر معافی کے بعد (مفاہمت) ہوتی ہے ۔ جنرل باجوہ کو بدعنوان کہنے کا سلسلہ شروع کردیا اورپھر گلے لگالیا۔ کسی کو ہیرو کہنا، اسے زیرو بنانا اور پھر اسے نااہلی سے ہیرو بنانا، یہی وہ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مدر آف آل ڈیل کا مطلب ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ تینوں (پی ایم ایل این، پی ٹی آئی، پی پی پی) قومی جماعتیں ہیں۔ میں پارٹیوں کی بات کر رہا ہوں۔ تینوں کی اپنی اپنی بنیادیں ہیں۔ موجودہ حالات میں کوئی بھی تمام محاذ کھولنا نہیں چاہے گا۔ مشاہد نے کہا کہ پی ٹی آئی افغانستان کی سرحد سے ملحق خیبر پختونخواہ میں ہے ، جس کے حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہیں۔ اس لیے اسے (پی ٹی آئی) نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ قومی سیاست میں قومی مفاد کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے ۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں ملک میں اتحاد کو یقینی بناتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے تسلیم کیا ہے وہ کس علاقے میں کام کریں گی۔