نوٹس کے بغیر غیر مجاز تعمیرات منہدم کرنا عوام سے زیادتی تلنگانہ ہائی کورٹ کا تاثر

   

نئے قانون کے خلاف درخواست سماعت کیلئے قبول، عہدیداروں کو ایک طرفہ اختیارات کی مخالفت
حیدرآباد ۔3۔ مارچ (سیاست نیوز) تلنگانہ ہائی کورٹ نے نوٹس کے بغیر مجاز تعمیرات کو منہدم کرنے کی مخالفت کی اور اس سلسلہ میں حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے وضع کردہ نئے بلدی قانون کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست دائر کی گئی ۔ چیف جسٹس آر ایس چوہان اور جسٹس اے ابھیشک ریڈی پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے نوٹس کے بغیر غیر مجاز تعمیرات کو منہدم کرنے کیلئے میونسپل کمشنرس کو دیئے گئے اختیارات پر سوال اٹھائے ۔ عدالت نے کہا کہ یکطرفہ طور پر عہدیداروںکو اختیارات دینا ٹھیک نہیں۔ عدالت نے کہا کہ حکومت اپنے اختیارات کا یکطرفہ استعمال کرتی ہے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ اختیارات دستور کے دائرہ میں ہونے چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ عوامی حقوق اور حکومت کے اختیارات کے درمیان یکسانیت ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ قوانین کو وضع کرتے ہوئے عوام کے حقوق کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے ۔ ڈیویژن بنچ نے ریمارک کیا کہ پھانسی کی سزا کے موقع پر مجرم کو مہلت دی جاتی ہے تو کیا مکان تعمیر کرنے والے کو موقع نہیں ملنا چاہئے ؟ تمام امور کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے قوانین تیار کئے جائیں۔ غیر مجاز تعمیرات کو کسی نوٹس کے بغیر میونسپل کمشنرس کو منہدم کرنے کا اختیار دیتے ہوئے تیار کردہ میونسپل ایکٹ پر تفصیلی حلفنامہ داخل کرنے حکومت کو ہدایت دی گئی۔ مقدمہ کی آئندہ سماعت 11 مارچ کو مقرر کی گئی ہے۔ نئے میونسپل ایکٹ کے سیکشن 178(2) کو چیلنج کرتے ہوئے مفاد عامہ کی درخواست کو عدالت نے سماعت کیلئے قبول کیا۔ عدالت نے کہا کہ میونسپل ایکٹ کے سیکشن 178(2) کو سیکشن 174(4) کے ساتھ ملاکر دیکھنا چاہئے ۔ اس سیکشن کے مطابق مکاندار اس بات کا تیقن دیتا ہے کہ وہ تعمیر میں قواعد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ عدالت نے کہا کہ اگر منظورہ پلان سے ہٹ کر تعمیر کی گئی تو کیا اسے منہدم کردیں گے ۔ عدالت کا احساس تھا کہ منہدم کرنے سے قبل مکاندار کو وضاحت کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ حکومت کے وکیل نے وضاحت کی کہ نئے قانون سے عوام کو کوئی نقصان نہیں ہے ، لہذا مفاد عامہ کے تحت اس کی سماعت ٹھیک نہیں۔ وکیل نے کہا کہ دیئے گئے تیقن کے برخلاف تعمیر کرنے کی صورت میں انہدام کا اختیار دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ فنی وجوہات ظاہر کرتے ہوئے قانون کی تائید مناسب نہیں۔ مفاد عامہ کے تحت کوئی بھی عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے۔