نیوزی لینڈ قتل عام غیرذمہ دار سوشیل میڈیا عالمی خطرہ: جسنڈا آرڈن

   

کرائسٹ چرچ۔20 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) اب جبکہ مسجد النور اور لین ووڈ مسجد میں ہوئے دہشت گرد حملوں میں شہید مسلمانوں کی نعشوں کی تدفین کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے وہیں وزیراعظم جسنڈا آرڈن نے سوشیل میڈیا سے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے خطرات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ایک جنوبی سفید فام آسٹریلیائی شہری سے صرف 17 منٹوں کے اندر 50 مسلمانوں کو گولی مارکر شہید کردیا تھا اور اس پر طرہ یہ کہ اس نے اس قتل وغارتگری کے منظر کو فیس بک پر راست پیش کیا کیوں کہ اس نے اپنے ہیلمیٹ اور بندوق پر کیمرہ نصب کررکھا تھا۔ اب اتنی دیدہ دلیری سے کوئی کام کرے تو اسے جنونی ہی ہا جائے گا جبکہ مغرب کا ہمیشہ سے اسلامی درسگاہوں اور مساجد کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ وہاں ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس وقت نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہتھیار موجود ہوتے تو کیا قاتل زندہ واپس جاسکتا تھا؟ محترمہ آرڈن نے کہا کہ اس وقت ان کی توجہ کا اصل مرکز نیوز لینڈ کے عوام ہیں لیکن عالمی قائدین کو بھی کچھ معاملات سے اجتماعی طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سب سے اہم اور خطرناک معاملہ سوشیل میڈیا کا ہے جس کے ذریعہ کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ہر ایک کے لیے مصیبت کا باعث بن جاتے ہیں۔ جس طرح قتل عام کے ویڈیوز کو وائرل کیا گیا وہ انسانیت سوز حرکت تھی۔ ہوم لینڈ سکیوریٹی کی ہائوس کمیٹی نے اس نوعیت کے ویڈیوز اور امیجس کے انتخاب کو ایک انتہائی اہم ذمہ داری قرار دیا حالانکہ سوشیل میڈیا کی کمپنیاں ہمیشہ یہ استدلال پیش کرتی ہیں کہ ان کے پلیٹ فارمس کے ذریعہ کیا مواد بھیجا جارہا ہے (کمپنیاں) ذمہ دار نہیں ہیں تاہم وزیراعظم آرڈن کا کہنا ہے کہ اس طرح سوشیل میڈیا اپنا دامن نہیں جھاڑ سکتیں۔ کیا ان کے لیے منافع ہی سب کچھ ہے اور ذمہ داری کچھ بھی نہیں؟ چہارشنبہ کو ایک شامی پناہ گزین شخص اور اس کے بیٹے کی تدفین عمل میں آئی۔ قبرستان لین ووڈ مسجد کے قریب واقع ہے جہاں سینکڑوں سوگواروں نے شرکت کی۔ تدفین کے وقت لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ مرحومین خالد مصطفی اور ان کے 15 سالہ بیٹے مرحوم حمزہ کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعظم نے اس اسکول کا دورہ بھی کیا جہاں حمزہ زیر تعلیم تھا۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کے تمام شہریوں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ قاتل کا نام اپنی زبان پر ہرگز نہ لائیں کیوں کہ ایسا کرکے وہ اسے مشہور کردیں گے جو قاتل کی خواہش ہے کیوں کہ وہ ایک دہشت گرد ہے۔ ایک قاتل ہے لہٰذا اس کا ’’بے نام‘‘ رہنا ہی مناسب ہے۔ قبل ازیں بھی انہوں نے کہا تھا کہ قاتل کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اور پارلیمنٹ کے سیشن کا آغاز بھی تلاوت قرآن پاک سے ہوا تھا اور اپنے خطاب کا بھی آغاز وزیراعظم نے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر کیا تھا۔