وبائی امراض ‘ احتیاط ضروری

   

کیا دیکھتا ہے ہاتھ میرا چھوڑدے طبیب
یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے
ملک بھر میں وبائی امراض کا عروج دکھائی دے رہا ہے ۔ ہماری اپنی ریاست تلنگانہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے ۔شہری علاقے ہوں یا پھر دیہی علاقے ہوں عوام ان وبائی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر انفلوئنزا سے لوگ بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اعضاء شکنی ‘ تیز بخار ‘ درد سر اور نزلہ نے عوام کو متاثر کر رکھا ہے ۔ یومیہ سینکڑوں افراد ان شکایات کے ساتھ دواخانوں سے رجوع ہو رہے ہیں۔ بچے ‘ جوان اور بوڑھے سبھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ دواخانوں میں مریضوں کا ہجوم دکھائی دے رہا ہے ۔ ڈاکٹرس اور طبی ماہرین کی جانب سے عوام کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اس سے محفوظ رکہنے کیلئے احتیاطی اقدامات پر خاص توجہ کریں۔ احتیاط کے ذریعہ ہی ان امراض سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے ۔ یا پھر اس کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔ بد احتیاطی مسائل کا سبب بن سکتی ہے ۔ جو انفلوائنزا کی شکایت عام ہوتی جا رہی ہے اس میں خاص طور پر احتیاط کا مشورہ دیا گیا ہے ۔بڑے ماہرین اور ڈاکٹرس نے بھی عوام سے کہا ہے کہ وہ ممکنہ حد تک اس معاملے میں احتیاط سے کام لیں اور تشویش کا شکار نہ ہوں ۔ حالانکہ یہ امراض عوام کو بہت زیادہ متاثر کر رہے ہیں لیکن ن کی وجہ سے زیادہ تشویش کی بات نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلہ میں ممکنہ حد تک احتیاط سے کام لیا جائے اور ڈاکٹرس سے رجوع ہوتے ہوئے علاج کو ترجیح دی جائے ۔ گھریلو ٹوٹکے اور نسخے آزمانے سے ممکنہ حد تک گریز کیا جائے ۔ ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ یہ وبائی امراض کورونا کی طرح پھیل رہے ہیں۔ ایسے میں عوام کو گھریلو ٹوٹکوں کی بجائے ڈاکٹرس کے مشوروں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت عوام کو حالانکہ مشورے دے رہی ہے تاہم اس معاملے میں عوام میں بڑے پیمانے پر شعور بیداری کی بھی ضرورت ہے اور سرکاری سطح پر صفائی اور صحت کے اقدامات بھی کئے جانے چاہئیں تاکہ عوام کو ان امراض سے بچایا جاسکے ۔ صرف مشوروں کے ذریعہ حکومت کی ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی ۔ عوام بھی صرف حکومت پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے طور پر بھی اس معاملے میں ضروری اقدامات کیلئے آگے آئیں۔
ڈاکٹرس اور طبی ماہرین کے مطابق چونکہ یہ امراض کورونا کی طرح تیزی سے پھیل رہے ہیں ایسے میںغفلت نہیں برتی جانی چاہئے ۔ معمولی سی غفلت بھی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے ۔ کورونا کی دو لہروں میں ہم نے بڑی تباہی دیکھی ہے ۔ کروڑوں افراد اس سے متاثر ہوئے تھے اور ہندوستان میں لاکھوں افراد اپنی زندگیاں ہار بیٹھے ہیں۔ ہم میں کئی ایسے ہیں جن کے عزیز رشتہ دار ’ دوست احباب میں کوئی نہ کوئی موت کی آغوش میں چلا گیا ہے ۔ ایسے میں غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ کورونا کی تباہی کے بعد عوام میں حالانکہ صحت کے تعلق سے زیادہ فکر پائی جاتی ہے ۔ لو گ خود کو صحتمند رکھنے کیلئے ممکنہ اقدامات کر رہے ہیں۔ جسمانی نقل و حرکت پر بھی توجہ دی جا رہی ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اچانک ہی لوگ موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ کہیں بھی اور کسی بھی وقت قلب پر حملہ ہونے لگا ہے اور لوگ فوت ہو رہے ہیں۔ ان میں عمر کا کوئی دخل نہیں رہا ہے ۔ نوجوان لوگ ہی زیادہ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ جہاں تک وبائی امراض کا سوال ہے تو اس سے ہر عمر کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ خاص طورپر بچے اور ضعیف العمر افراد میں یہ وبائی امراض زیادہ اثر انداز ہونے کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں سبھی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ صحت کے معاملے میں کوئی غفلت اور لا پرواہی نہ برتی جائے ۔ ممکنہ حد تک احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور وبائی امراض سے خود بھی اور گھر والوں کو بھی بچانے پر توجہ دی جائے ۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آس پاس کے ماحول کو پاک صاف رکھاجائے ۔ گندگی اور آلودگی سے ممکنہ حد تک بچا جائے ۔ ڈاکٹرس کا تویہ بھی مشورہ ہے کہ جس طرح کورونا میں ایک دوسرے سے فاصلے رکھے جا رہے تھے اسی طرح کی احتیاط برتی جائے ۔ پرہجوم مقامات پر جانے سے گریز کیا جائے ۔ ان مشوروں کے پیش نظر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وبائی امراض کس حد تک شدت کے ساتھ اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں حکومت سے بھی اقدامات کی امید کرنی چاہئے اور خود بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے آس پاس کے ماحول کو ان امراض سے بچانے کیلئے جو کچھ ہم سے ممکن ہوسکتا ہے وہ کیا جائے ۔