وزیراعظم کو خط لکھنا ’جرم‘ کب ہوگیا؟

   

رویش کمار

بھیما کوریگاؤں تشدد معاملے میں ملزم گوتم نولکھا کے کیس کی سپریم کورٹ میں جسٹس ارون مشرا اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ پر سماعت ہوئی۔ گوتم کے وکیل ابھیشک سنگھوی نے کہا کہ اُن کے مؤکل کا نام ایف آئی آر میں نہیں تھا جب یہ جنوری 2018ء میں درج کی گئی تھی۔ اگست 2018ء سے ان کی گرفتاری کو عدالت نے روک رکھا ہے، اور تب سے پولیس نے ان سے پوچھ تاچھ نہیں کی ہے۔ گوتم تشدد کے خلاف ہیں۔ وہ سی پی آئی ماؤسٹ کے ممبر نہیں ہیں۔ کارروائی صرف چند ضبط کاغذات کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ سنگھوی نے عدالت پر زور دیا کہ گوتم نولکھا کو عدالت کی دی گئی پروٹیکشن میں اضافہ کرنا چاہئے، جس پر عدالت نے حکم دیا کہ گرفتاری نہیں ہونا چاہئے۔ جسٹس مشرا نے کہا کہ ضمانت عطا کرنا اور ایف آئی آر کی منسوخی دونوں علحدہ معاملے ہیں۔یو اے پی اے کی دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس مشرا نے کہا کہ کوئی ممنوعہ تنظیم کا رکن ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی اس طرح کی آرگنائزیشن کی اعانت کرے تو وہ یو اے پی اے کے تحت مجرم ہوسکتا؍ ہوسکتی ہے۔ حکومت مہاراشٹرا نے گوتم نولکھا کی پٹیشن کی مخالفت کی ہے۔ ریاستی حکومت کے کونسل نے کہا کہ گوتم کے خلاف معقول ثبوت ہے۔ اس پر جسٹس مشرا نے کہا کہ جو بھی ثبوت ملا ہے، اسے عدالت کے روبرو 15 اکٹوبر کو اس کیس کی اگلی سماعت پر پیش کیا جائے۔

ہجومی تشدد کے تعلق سے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہے۔ 16 جولائی 2018ء کو سپریم کورٹ نے پولیس پر مکمل ذمہ داری عائد کی تھی کہ ماب لنچنگ کو ضلع سے دارالحکومت کی سطح تک روکا جائے۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ریڈیو، ٹی وی اور سرکاری سائٹس کے ذریعے یہ انتباہ عام کریں کہ ہجومی تشدد یا ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت پر سخت سزا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کو بھڑکانے والا مواد جس پر کوئی روک ٹوک نہیں، اسے ہٹا دینا چاہئے۔ اس میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ جائزہ لینا چاہئے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اس ضمن میں ریڈیو، ٹی وی یا اخبار کے ذریعے کیا کیا ہے۔ کیا آپ نے اس طرح کی کوئی مہم یا کوئی اشتہار دیکھا ہے۔ اب اس تناظر میں 49 افراد کے مکتوب پر نظر ڈالیں جو وزیراعظم کو لکھا گیا۔ مکتوب لکھنے والوں نے خود کو امن کے حامی قرار دیا اور وزیراعظم سے اپیل کی کہ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کی لنچنگ کو فوری روکا جانا چاہئے۔ اب آپ بتائیے۔ کیا یہ مکتوب لکھنے والے 49 افراد نے کوئی جرم کیا ہے؟ لیکن ان کے خلاف مظفرپور، بہار میں ایف آئی آر درج کیا گیا (تازہ خبر ہے کہ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بند کیا جاچکا ہے اور درخواست گزار کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی گئی ہے)۔ ان لوگوں پر قوم پرستی میں بگاڑ پیدا کرنے، مذہبی جذبات بھڑکانے اور نقص امن کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ تو ماب لنچنگ کے خلاف عوام کو متنبہ کرنے کی کوشش ہوئی تھی، وزیراعظم یا کسی کو بھی مکتوبات لکھنا کیا مذہبی جذبات بھڑکانے کے مترادف ہوتا ہے؟ مکتوب تحریر کرنے والوں میں بعض تو کافی معمر ہیں۔

84 سالہ شیام بنیگل ہیں، جنھوں نے دستور کے بارے میں راجیہ سبھا کیلئے زبردست ایپی سوڈس بنائے ہیں۔ شیام بنیگل نے 2005ء کا داداصاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کیا۔ 84 سالہ سمترا چٹرجی بھی 2011ء کی دادا صاحب پھالکے ایوارڈ یافتہ ہیں۔ 78 سالہ اے گوپال کرشنن کو 2004ء میں داداصاحب پھالکے ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔ پروفیسر سمیت سرکار 80 سالہ تاریخ کا نام ہے۔ اُن کا عالمی شہرہ ہے۔ کب سے ایسا ہوگیا کہ ملک کو 80-84 سال کی عمر والے مصنف، فلمساز، تاریخ داں سے خطرہ پیدا ہوگیا۔ افسوس! اب لب کشائی بھی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔
معلوم نہیں کتنے آئی اے ایس، آئی پی ایس نے سمیت سرکار کی کتاب ’رتا ماکر‘ سے تحریک حاصل کی ہے۔ انھوں نے کوئی پتھر تک نہیں پھینکا اور ان کے خلاف غداری کا کیس دائر کردیا گیا۔ 82 سالہ سوشل سائنٹسٹ آشیش نندی نے وزیراعظم کو خط لکھا اور قومی ترانہ پڑھا، رامچندر گوہا جو ہندوستان کے اخبارات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں، وہ غدار بن گئے، کیونکہ انھوں نے بھی ایک خط لکھا۔ کسے معلوم گھروں میں کتنی کتابیں پڑی ہیں۔ کسی روز وہ بھی قوم دشمن بنا دی جائیںگی۔ شوبھا مڈگل، پارتھا چٹرجی، نوین کشور، منی رتنم یہ سب ملزمین ہیں۔ وزیراعظم کو مکتوب تحریر کرنے والے 49 افراد میں شالین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے یاددہائی کرائی کہ وزیراعظم نے ماب لنچنگ کی پارلیمنٹ میں مذمت کی تھی، لیکن یہ کافی نہ ہوا۔ ہجومی تشدد میں ملوث ہونے والوں کے خلاف کارروائی ضرور ہونا چاہئے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے اہم ہے۔ لیکن اختلاف رائے کا مطلب قوم دشمنی نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود مظفرپور میں ایک چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ اُدھر بلند شہر میں پولیس انسپکٹر سبودھ کمار کو گاؤکشی کے واقعہ کے بعد ہجوم نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اس کیس کے اصل ملزم یوگیش راج کو ضمانت مل چکی ہے۔ سبودھ کمار کے لواحقین کا الزام ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کافی روا روی میں کی جارہی ہے جس کے سبب ملزمین بچ نکلنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔بمبے ہائیکورٹ نے ممبئی کے اہم علاقے آرے کالونی کے 2646 درخت کاٹنے کی اجازت دے دی۔ وہاں ایک میٹرو ڈپو تعمیر کیا جائے گا۔ بریہن ممبئی میونسپل کارپوریشن کے متعلقہ حکام نے یہ تجویز منظور کردی۔ چیف جسٹس پرادیپ ندراجوگ اور جسٹس بھارتی ڈانگرے نے کہا کہ وناشکتی کی پٹیشن میرٹ کی اساس پر مسترد نہیں کی جارہی ہے، بلکہ ایسا معقول غوروخوض کے بعد کہ ہر کسی کو خلق خدا کہا گیا ہے۔ لہٰذا، یہ کیس میرٹ پر خارج نہیں کیا گیا کیونکہ یہ مسئلہ نیشنل گرین ٹربیونل اور سپریم کورٹ میں بھی زیردوراں ہے۔ ان درختوں کی کٹائی کو روکنے کیلئے ممبئی میں کئی مظاہرے ہوئے۔ ایک لاکھ افراد نے اپنی پٹیشن آن لائن پیش کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا کہ ایک لاکھ افراد کے اعتراض پر غور نہیں کیا گیا۔ فیصلہ میں بیان کیا گیا کہ پراجکٹ کے تحت سنجے گاندھی نیشنل پارک میں دو سال قبل ہی 20,900 کونپلیں مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ لگائی گئیں، جن میں سے 95 فیصد درختوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔
پولیس نے پنجاب اینڈ مہاراشٹرا (پی ایم سی) بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر زوائے تھامس کو کئی دنوں کی تلاش کے بعد آخرکار گرفتار کرلیا ہے۔ ممبئی پولیس کی اکنامک آفینسیس ونگ کی ایف آئی آر کی اساس پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے مختلف مقامات پر دھاوے بھی کئے ہیں۔ پرانے چیئرمین اور پروموٹرس ایچ ڈی آئی ایل گروپ آف کمپنیز سے متعلق ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ونگ نے اس کیس میں راکیش کمار وادھوا اور سارنگ وادھوا کو گرفتار کیا ہے۔ راکیش چیئرمین ہاؤزنگ بینک انفرا لمیٹیڈ ہے۔ اس بینک کو پی ایم سی بینک نے سینکڑوں کروڑ کا قرض دیا۔ اتنا ہی نہیں جب ریزرو بینک نے اسے 23 ستمبر کو روک دیا تھا، تب بینک سے 5 دنوں میں 3200 کروڑ روپئے نکال لئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اندازہ ہوچلا تھا کہ یہ بینک ڈوبنے والا ہے۔
مانسون کی موسلا دھار بارشوں نے اس مرتبہ خاصا قہر ڈھایا ہے۔ وزارت داخلہ کے ڈیٹا کے مطابق اس مرتبہ 1900 افراد مانسون کے دوران بارش اور سیلاب کے سبب فوت ہوچکے ہیں۔ 22 ریاستوں میں 25 لاکھ افراد کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ پٹنہ میں کئی علاقوں سے پانی نکل گیا ہے لیکن راجیندر نگر، پاٹلی پتر کالونی میں ہنوز پانی جمع ہے۔ راجیندر نگر میں سات دن ہوچکے لیکن علاقہ ہنوز زیرآب ہے۔ کچے مکانات کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس سے مزید کتنا نقصان ہوا ہے، اس کا تخمینہ کرنا باقی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ غریب لوگوں کو اس نقصان کا معاوضہ کس طرح ادا کیا جائے۔ عوام موجودہ طور پر خود پانی نکال پھینکنے میں مصروف ہیں۔ زیرآب علاقوں میں اے ٹی ایم بند پڑے ہیں۔ عام لوگوں کو پینے کیلئے صاف ستھرے پانی کے حصول کیلئے کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بارش تو تھم گئی اور بیان بازی کے باوجود پٹنہ کا سسٹم صورتحال سے نمٹنے میں قاصر رہا ہے۔٭
ravish@ndtv.com