وزیر اعظم مودی اور سپریم کورٹ

   

جب فرق نہ تھا کچھ بھی انصاف کی نظروں میں
اس وقت معزز تھے انصاف بھی منصف بھی
وزیر اعظم مودی اور سپریم کورٹ
وزیر اعظم نریندرمودی نے گذشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایودھیا میںرام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر سپریم کورٹ میں قانونی عمل کی تکمیل کے بعد ہی آرڈیننس کے تعلق سے فیصلہ کیا جائیگا ۔ یہ ایک طرح سے عدالتی عمل کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کہی جاسکتی ہے ۔ مودی کے بیان سے یہ بھی واضح اشارے ملے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آتا ہے تو عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہوئے آرڈیننس کی راہ اختیار کرکے ایودھیا میںرام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی جائے گی ۔ یہ اشارہ اس بات کا عکاس ہے کہ حکومت نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر فیصلہ اس مقدمہ میں ہندووں کے خلاف آتا ہے تو ملک کی اس اعلی ترین عدالت کے فیصلے پر عمل کرنے کی بجائے اس کے برخلاف آرڈیننس جاری کیا جائیگا اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو ہی یقینی بنایا جائیگا ۔ یہ ایک طرح سے عدالت کی اہمیت گھٹا نے یا پھر مبینہ طور پر عدالت کی تضحیک کے مترادف کہا جاسکتا ہے ۔ اب تک ہندو تنظیموںاور دوسرے فاشسٹ گروپس کی جانب سے کھلے عام کہا جاتا رہا ہے کہ ایودھیا مسئلہ میں اگر رام مندر کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائیگا اور عدالتی فیصلے کے خلاف بھی جاتے ہوئے ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کی جائے گی ۔ کچھ مرکزی وزرا بھی اس طرح کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ بی جے پی کے کئی اعلی قائدین نے اسی طرح کے خیال کا اظہار کیا ہے ۔ تاہم حکومت کے سربراہ اور ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے بالواسطہ طور پر اسی خیال کی تائید میںاظہار خیال کرنا انتہائی سنگین عمل کہا جاسکتا ہے ۔ اگر سربراہ حکومت ہی کی جانب سے اس بات کے اشارے دئے جائیں کہ ملک کی عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد بھی آرڈیننس جاری کیا جائیگا تو یہ عدالت کی تضحیک ہی کہی جاسکتی ہے ۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ملک کے صحیح الفکر اور سکیولر نظریات کے حامل عوام اور سیاسی جماعتوں کیلئے انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کی دوسری تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے اس مسئلہ پر کوئی اظہار خیال کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے ۔
ایک بات تو حالیہ عرصہ میں یہ دیکھی گئی ہے کہ اقتدار کے نشہ میں ہندو تنظیموں کی جانب سے جنہیں بی جے پی کی تائید و حمایت حاصل ہے اسطرح کی بیان بازیاں کی جاتی رہی ہیںجن سے ملک کے قانون اور دستور کی دھجیاں اڑتی گئی ہیں۔ ایک مرکزی وزیر نے تو یہ بھی بیان جاری کردیا تھا کہ ان کی حکومت بنی ہی اس لئے ہے تاکہ ملک کے دستور میں ترمیم کی جاسکے اوراسے بدلا جاسکے ۔ کچھ فاشسٹ نظریات کے حامل گوشوں کی جانب سے ایک سے زیادہ مسائل پر اس طرح کے بیانات جاری کئے گئے ہیںجن کے نتیجہ میں سماج میں نراج اور بدامنی و بے چینی کی فضا پیدا ہوئی ہے ۔ ان سارے معاملات میںریاستی حکومتیں اور مرکز کی نریندر مودی حکومت نے خود بھی خاموشی اختیار کرلی تھی ۔ کئی گوشوں کی جانب سے ایسے بیانات جاری کئے گئے جن کے نتیجہ میں عدالتی عمل اور ملک کی عدلیہ کا وقار مبینہ طور پر مجروح ہوا ہے ۔ اس طرح کی بیان بازیاں ملک کے مفاد میں نہیں کہی جاسکتی تھیں۔ امید یہ جاتی تھی کہ وزیر اعظم یا حکومت کے دوسرے ذمہ داران اس طرح کے بیانات جاری کرنے والوں کی سرکوبی کرینگے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی تاہم ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ایسے بیانات جاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی حکومت خاموش تماشائی رہی ۔
اب تو خود وزیر اعظم نے ایسا بیان دیا ہے جس کے نتیجہ میں عدالت کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ سماج میں عدلیہ کے وقار کو بڑھانے اور بحال کرنے کیلئے اقدامات کریں۔ عوام میں عدالتی عمل کے احترام کو فروغ دیا جائے لیکن اگر خود ملک کے وزیر اعظم اس طرح کے بیانات جاری کریں اورا یسے ریمارکس کریں جن سے عدالتی عمل کی اہمیت مبینہ طور پر گھٹ جاتی ہے تو یہ انتہائی افسوس کی بات ہے اور ایک جمہوری اور دستوری ملک ہندوستان میں تو ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور سکیولر نظریات میں یقین رکھنے والے افراد ایسے بیانات اور اس کے پس پردہ محرکات کو سمجھیں اور ان کو عوام میں پیش کرتے ہوئے شعور بیدار کرنے کی کوشش کریں تاکہ عدلیہ کا وقار اور احترام برقرار رہے ۔