وزیر اعظم کو وینکیا نائیڈو کا مشورہ

   

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

سابق نائب صدرجمہوریہ ہند ایم وینکیا نائیڈو نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے وقفہ وقفہ سے ملاقاتیں کریں اور اگر ان کے ذہنوں میںکچھ غلط فہمیاں ہیں تو انہیں دور کرنے میں ان ملاقاتوں سے مدد مل سکتی ہے ۔ ایم وینکیا نائیڈو ایک کتاب کی رسم اجراء تقریب سے خطاب کر رہے تھے جو وزیر اعظم کی تقاریر سے متعلق تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہندوستان کو ساری دنیا میں ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے ۔ تمام ممالک ہندوستان سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم نریندرمودی کی قیادت میں ہندوستان نے کئی شعبہ جات میں ترقی کی ہے ۔ سابق نائب صدر جمہوریہ کا کہنا تھا کہ ملک کے عوام کی نریندرمودی بہتر انداز میںرہنمائی کر رہے ہیں۔ عوام کوبھی حکومت کے اقدامات سے مدد مل رہی ہے ۔ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس کا اثر بیرونی دنیا پر بھی ہو رہا ہے اور لوگ ہندوستان کو ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سب کے باوجود سیاسی حلقوںمیں وزیراعظم کے طریقہ کار کے تعلق سے کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سیاسی مجبوریوں کا نتیجہ ہو لیکن اس کیلئے وزیر اعظم کوتمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے وقفہ وقفہ سے ملاقاتیں کرتے رہنا چاہئے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یہ ملاقاتیں ہوتی رہیں تو ان غلط فہمیوں کو بھی دور کیا جاسکتا ہے ۔ وینکیا نائیڈو نے سیاسی جماعتوں کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں اپنا ذہن کھلا رکھیں اور اسی کے مطابق رائے قائم کریں۔ ملک کے موجودہ حالات میںیہ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مابین نظریاتی اور سیاسی اختلافات تو رہیں لیکن ان کو شخصی پسند اور نا پسند کے زمرہ میں یا شخصی مخالفت کے زمرہ میں شامل نہ کیا جائے ۔ ہندوستان کی جو سیاسی روایات رہی ہیں ان میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں الگ الگ نظریات رکھنے والی جماعتوں کے قائدین میں باہمی تعلقات بہت بہتر اور اچھے رہے ہیں۔ ایسے قائدین کی باہمی دوستیاں بھی ملک کے عوام کو دیکھنے کو ملی ہیں۔
سیاسی اختلافات اور نظریاتی عدم اتفاق ایک فطری بات ضرور ہے لیکن ان سیاسی اختلافات کو آج کے ماحول میں شخصی دشمنی تک پہونچایا جا رہا ہے جو ہندوستانی سیاست میں مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔ جہاں تک وزیراعظم نریندرمودی کا سوال ہے تو انہیں آج ملک کا سب سے مقبول لیڈر بھی کہا جاتا ہے ۔دوسری جو سیاسی جماعتیں ہیں وہ بھی عوام میں اپنا کچھ نہ کچھ مقام رکھتی ہیں۔ کسی کوکسی ریاست میں بالادستی حاصل ہے تو کسی کو کہیں اور برتری ملتی ہے ۔ عوام کی تائید سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ سیاسی حلقوں میں عوامی بہتری اور ملک کی ترقی اور ملک کے مفادات کو مقدم رکھا جانا چاہئے اور انہیں ترجیح دی جانی چاہئے ۔ حکومتوں سے اختلاف ملک کی اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے ۔ تاہم یہ اختلاف رائے شخصی بنیادوں پر نہیں بلکہ پالیسیوں اور پروگراموں اورحکومت کے کام کاج کی بنیادوں پر ہونا چاہئے ۔ اگر حکومت کے کام کاج میں کوئی جھول یا نقص ہے تو اس کی نشاندہی کرنا اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ انہیں اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں ہمیشہ سرگرم رہنا چاہئے ۔ حکومت پر اثر انداز ہوتے ہوئے ان خامیوں کو دور کروانے کی تگ و دو کی جانی چاہئے ۔ حکومت کو ان خامیوں کا احساس کرواتے ہوئے متبادل تجاویز پیش کی جانی چاہئے تاکہ حکومت ان خامیوں کو دور کرسکے ۔ ملک کی سیاست میں یہی روایت رہی ہے اور پارلیمنٹ میں بھی حکومت کے قوانین میں اپوزیشن کی تجاویز اور ترامیم کو قبول بھی کیا گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے کبھی اپوزیشن کی تجاویز و ترامیم کو یکسر مسترد کردیا ہو یا انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا ہو ۔
جہاں تک حکومت کا مسئلہ ہے تو ماضی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب حکومتوں نے اپوزیشن کے رول کا اعتراف کیا ہو۔ان کی اہمیت اور تجاویز کو بھی قبول کیا ہو۔ اختلاف رائے کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ حکومت کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہی یہی ہے کہ وہ حکومت کی ناکامیوں اوراس کی غلطیوں کو اجاگر کرے ۔ اختلاف رائے کو دشمنی سے تعبیر کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ وینکیا نائیڈو نے جو تجویز پیش کی ہے اسے ایک مثبت تجویز بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس معاملے میں وزیراعظم کو یقینی طور دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے بڑھانے چاہئیں۔ سیاسی اختلافات کو باہمی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا موقع دینے سے ہر کسی کو گریز کرنا چاہئے ۔
تلنگانہ میں اقلیتی اسکیمات و ادارہ جات
تلنگانہ میںاقلیتوں کی اسکیمات اور ادارہ جات انتہائی بدحالی کا شکار ہیں۔ کئی ادارہ جات میںذمہ دار عہدیدار موجود نہیںہیں۔ ایک ہی عہدیدار کو کئی اداروںمیں ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں۔ سرکاری اسکیمات کیلئے فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔ جو فنڈز جاری کئے جا رہے ہیں ان کا استعمال مناسب اور موثر ڈھنگ سے نہیںکیا جا رہا ہے ۔ اقلیتوں کیلئے جو اسکیمات شروع کی گئی تھیں وہ صرف کاغذ تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ عوام سرکاری دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔ انہیں کوئی جواب دینے والا تک دستیاب نہیں ہے ۔ عہدیدار من مانی انداز میں فیصلے کرتے ہوئے کام چلا رہے ہیں۔ کوئی کسی کے احکام پر عمل کرنے کیلئے تیار نظر نہیںآتا ۔ ریاستی وزیر اقلیتی بہبود بھی اس معاملے میں بے بس نظر آتے ہیں یاپھروہ زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیںکرتے ۔ حکومت اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے تیار نظر نہیںآتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ حکومت نے اقلیتی بہبود کے محکمہ کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے ۔ حکومت کی لاپرواہی اور عہدیداروں کی من مانی کی وجہ سے اقلیتوںکو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ محکمہ میں جو خرابیاں ہیںانہیں دور کیا جانا چاہئے اور عہدیداروں کو اسکیمات پر عمل آوری کے معاملہ میں جوابدہ بنایا جانا چا