وزیر اعظم کے سرکاری و انتخابی دورے

   

دستکیں دیتی ہیں آ آکے جو دل پر میرے
ایسی بیتی ہوئی یادوں سے پریشان ہوں میں
وزیر اعظم نریندر مودی برسر اقتدار جماعت بی جے پی کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ بی جے پی جو ہمیشہ نظریات اور انفرادیت کی بات کرتی رہی ہے اور شخصیت پرستی کو اس نے ہمیشہ سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اب وہی بی جے پی شخصیت کے گرد گھومتی نظر آر ہی ہے ۔ پارٹی کی ساری سیاست نریندر مودی کے گرد ہی گھوم رہی ہے ۔ بی جے پی میں کوئی دوسرا لیڈر ایسا نہیں ہے جو عوام میں مقبولیت کا دعوی کرے ۔ پارٹی میں نمبر دو موقف رکھنے والے امیت شاہ بھی اس معاملے میں کوئی الگ مقام نہیں رکھتے ۔ حالانکہ پارٹی پر گرفت کے معاملے میںامیت شاہ کو کافی اہمیت حاصل ہے اور وہ انتخابی حکمت عملی طئے کرنے میں بھی مرکزی مقام رکھتے ہیں لیکن عوامی سطح پر صرف نریندر مودی کے گرد بی جے پی کی ساری سیاست گردش کرتی ہے ۔ جہاں تک نریندر مودی کا سوال ہے وہ بھی ملک کے وزیر اعظم ہونے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ ہی انتخابی موڈ ہی میں رہتے ہیں۔ وہ سرکاری پروگرامس اور پارلیمنٹ کی کارروائی تک کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جو جملے بازیاں ان کی جانب سے استعمال کی جاتی ہیں وہ بھی انتخابی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی کی جاتی ہیں۔ ملک کی کچھ ریاستوں میں جاریہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ تریپورہ ‘ راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور کچھ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی سرکاری دورے کرتے ہوئے مختلف پروگرامس کے افتتاح کرنے لگے ہیں۔ ان کے افتتاحی پروگرامس سرکاری سے زیادہ انتخابی نظر آنے لگے ہیں۔ وہ سرکاری پروگرامس کا بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جن پراجیکٹس کا آغاز کیا جا رہا ہے یا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے وہ بھی ایک حکمت عملی کے تحت انتخابی شیڈول کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی منعقد کئے جا رہے ہیں۔ پراجیکٹس ہمیشہ ہی ان ریاستوں میں شروع کئے جا رہے ہیں جہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔دوسری ریاستوں میںکوئی پراجیکٹ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری دورہ کیا جا رہا ہے ۔
جمہوری سیاست میں انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں عام بات ہیں۔ ہر جماعت اپنے طور پر رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے اور ان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے منصوبوں اور پروگرامس سے واقف کرواتی ہیں۔ عوام سے مختلف وعدے کئے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں چاہیں برسر اقتدار رہیں یا اپوزیشن میں رہیں سبھی کا یہی طریقہ ہے تاہم جہاں تک دستوری اور اہم عہدوں پر فائز افراد کا سوال ہے انہیں سرکاری روایات کا احترام کرنا ہوتا ہے ۔جو طریقہ کار ہے اس کو اختیار کرنا ہوتا ہے ۔ سرکاری ذمہ داریوں اور مصروفیات کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ دونوں میں توازن رکھتے ہوئے یہ کام کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم سرکاری عہدے اور سرکاری پروگرامس کو سیاسی فائدہ اور خاص طور پر انتخابی فائدے کیلئے استعمال کرنے کی روایت عام ہوگئی ہے ۔ بی جے پی نے یہ روایت شروع کی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ آٹھ سال سے زائد عرصہ سے یہی روایت آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ جن ریاستوں میں انتخابات کا موسم آتا ہے ان ریاستوں کے دورے بڑھ جاتے ہیں۔ انتخابی اور سیاسی دورے تو ٹھیک ہیں لیکن سرکاری دورہ بھی بڑھ جاتے ہیں اور جو سرکاری پروگرامس اور پراجیکٹس ہوتے ہیں ان کا بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ سرکاری پروگرامس میں اس طرح کی روش حالیہ برسوں میں بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔
حکومتیں انتخابات ہوں یا عام وقت ہو اپنی کامیابیوں اور اسکیمات کی تشہیر کرتی ہیں۔ بارہا ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں پر سرکاری پروگرامس سے تنقید کی کوئی روایت ہندوستانی سیاست میں نہیں رہی تھی جو اب شروع کردی گئی ہے ۔ سوال پوچھنے والوں کو کئی گوشوں سے نشانہ بنانا عام ہوگیا ہے ۔ اپوزیشن کو ہر موقع پر رسواء کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے ۔ جو سابقہ وعدے ہیں ان کی تکمیل کا کوئی تذکرہ کئے بغیر صرف دل خوش کرنے والے جملے کہے جا رہے ہیں ۔ اس روایت کو روکا جانا چاہئے ۔ سرکاری اور سیاسی پروگرامس اور تقاریر میں فرق ہونا چاہئے اور دونوں میں توازن رکھا جانا بہت ضروری ہے ۔