!ون نیشن ون راشن

   

زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشان اے چارہ گر دیکھے گا کون
!ون نیشن ون راشن
مرکز کی نریندر مودی حکومت نے عوام کے حق میں پالیسیوں اور ترجیحات کا جو گراف کھینچا ہے اس میں غریب عوام خاص کر مزدوروں اور میگرنٹس کے لیے واضح روڈ میاپ نظر نہیں آتا ۔ جملوں کی لکیروں پر غریبوں کی تقدیر کا اعلان کرنے والی اس حکومت نے ریڈ زون ، آرینج زون اور گرین زون کے ڈاٹ لگا کر ایک الجھن پیدا کردی ۔ ایک قوم ایک راشن کے ذریعہ ہر شہری کو جو جہاں ہے وہاں راشن ملنے کی سہولت ایک اچھی شروعات ہے لیکن سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ آیا حکومت کے اس منصوبے کے مطابق غریب عوام کو ان کے حصہ کا راشن آسانی سے مل پائے گا ۔ یہاں حالت تو یہ ہے کہ جن کے پاس باقاعدہ راشن کارڈ ہوتا ہے اور جن کو سرکاری عہدیداروں کی جانب سے اناج راشن لینے کے لیے ٹوکن دیا جاتا ہے وہ راشن دکان پر طویل قطار میں کھڑے رہنے کے باوجود دن گذرنے کے بعد خالی ہاتھ گھر واپس ہوتے ہیں کیوں کہ عوامی نظام تقسیم کے ان مراکز کو راشن سربراہ ہی نہیں ہوا یا سربراہ ہوا ہے تو راستے میں ہی غائب کردیا گیا ۔ یہ صورتحال کون کون نوٹ کرے گا اور کس کس کی شکایات دور ہوں گی ۔ مرکزی سطح پر حکومت کے اعلانات بقول سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے اگر ایک آدمی کے لیے ایک سو روپئے کی امداد جاری ہوتی ہے تو حقدار تک یہ رقم پہونچتے پہونچتے ایک روپیہ ہوجاتی ہے ۔ اس طرح کی سرکاری سطح پر ہونے والی دھاندلیوں کا ہر ایک کو علم ہے ۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ حکومت دیانتداری سے کام کررہی ہے اور غریبوں کے لیے امداد کا انتظام ہے یہ صرف آس اور اُمید پر زندہ رکھنے کی کوشش ہے ۔ مزدوروں کو اگر ان کے کام کے مقام پر ہی دو وقت کی روٹی اور رہنے کو آسرا مل جاتا تو یہ لوگ اس قدر پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے گھروں کی طرف جانے کے لیے نکل نہیں پڑتے ۔ حکومت نے تو لاک ڈاؤن کے نفاذ کے ساتھ ہی عوام سے کہا کہ جو جہاں ہے وہیں رہیں ۔ لیکن جن کے پاس روزگار نہیں ، راشن نہیں ، پیسہ نہیں وہ کہاں جائے ۔ جن فیکٹریوں میں مزدور کام کرتے تھے وہ بند کردی گئی ان کے رہنے کا بھی آسرا چھین لیا گیا تو یہ لوگ مجبوراً اپنے آبائی مقامات کو چل پڑے ۔ ان غریبوں نے لاک ڈاون اور فاقہ کشی سے بچنے کے لیے اپنی منزل کی راہ لی تھی لیکن منزل تک پہونچتے پہونچتے یہ تو موت کا شکار ہورہے ہیں ۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں ملک کی مختلف ریاستوں میں سڑک پر پیدل چلنے والے یا ٹرکوں کے ذریعہ سفر کرنے والے غریبوں مزدوروں کو حادثات کا شکار ہونا پڑا جس میں 17 میگرنٹس ہلاک ہوئے ۔ فاقہ سے ہونے والی موت سے بچنے کی کوشش کرنے والے یہ مزدور حادثات اور حالات کا شکار ہورہے ہیں ۔ یہ مزدور لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں خاموشی سے انتظار کرتے رہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی وہ اپنے وطن کو واپس ہوسکیں گے ۔ لیکن جب پے در پے لاک ڈاؤن کا پہلا ، دوسرا ، تیسرا اور اب چوتھا مرحلہ شروع ہوا تو ان غریبوں کو اپنا مستقبل تباہ دکھائی دینے لگا ۔ ناقابل برداشت مصائب کو جھیلتے ہوئے کڑی دھوپ میں ننھے ننھے بچوں ضعیف افراد کو لے کر ننگے پاؤں چلنے والوں پر حکومت کو کوئی ترس نہیں آیا ہے ۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے تشویش کی بات ہونی چاہئے ۔ لاک ڈاؤن اور موت کے مہیب سایہ نے ٹرانسپورٹ بند کردی ہے ۔ اب لاک ڈاؤن کا چوتھا مرحلہ شروع ہورہا ہے ۔ اس مرحلہ میں کورونا وائرس وباء کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے بعد کے حالات بہت تشویشناک ہوں گے ۔ یہ وباء سے شہری یا انسانی زندگی کو مکمل بدل کر رکھ دے گی ۔ کسی بھی وباء کی تاریخ بتاتی ہے کہ تمام وباؤں کا زیادہ زور شہروں میں ہی ہوتا ہے ۔ روزانہ جاری ہونے والی رپورٹس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر اموات شہروں میں ہی ہورہی ہیں ۔ اب لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے میں کچھ نرمی کی جاتی ہے تو اس وائرس سے آنے والے دنوں میں شہری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ اب حکومت اور عوام کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگی کہ وائرس کی وباء سے پہلے والی زندگی اور وباء کے بعد کی زندگی کیسی ہوتی ہے ۔ اس اعتبار سے ہی حکومت کو اپنی پالیسیاں بنانے اور عوام کو اپنی روزمرہ زندگیوں میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ بہر حال آج حکومت ان مجبور امیگرنٹس ورکرس اور بے بس کسانوں کو نظر انداز کررہی ہے ۔ کل رونما ہونے والے سنگین مسائل کے لیے خود حکومت ذمہ دار ہوگی ۔۔
کورونا وائرس کیلئے ویاکسن
کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے ساری دنیا میں ویاکسن کی تیاریوں کے بارے میں ہر ملک کا حکمراں اپنی کوششوں کا اظہار کررہا ہے ۔ امریکہ نے ویاکسن بنانے میں ہندوستانی سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کے ساتھ کام کرنے کا عزم کرتے ہوئے اس سال کے ختم تک ویاکسن کی دستیابی کو یقینی بنانے کی امید ظاہر کی ہے ۔ کورونا وائرس سے اب تک ساری دنیا میں 3 لاکھ سے زائد افراد فوت ہوچکے ہیں ۔ اس مہلک وائرس کے اصل مقام کا ہنوز پتہ نہیں چلایا جاسکا ۔ طبی شعبہ کے ذمہ داروں نے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا ہے کہ جو کوئی اس وائرس کا شکار ہوگا اس پر طویل مدتی کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ وائرس سے بچنے کے باوجود اس مریض کے جسمانی اعضاء کس حد تک کام کریں گے ۔ اگر یہ وائرس انسانی جسم میں چلا جائے تو اس سے کئی خلیے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے جس میں سب سے زیادہ دماغ اور قلب زیادہ اثر لیتے ہیں ۔ گردے اور جگر کے کمزور ہونے کا بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ ویاکسن کی تیاری کے لیے کئی مراحل سے گذرنے کی بات کرنے والے سائنسدانوں نے یہ توقع تو ظاہر کی کہ اس وقت دنیا بھر میں 120 ویاکسن پراجکٹس پر کام آیا ہے ۔ ان میں سے 8 ویاکسن کو اڈوانسڈ اسٹیج میں تیار کرتے ہوئے بندروں پر ان کی جانچ کروائی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں بھی وزیراعظم کیر فنڈس سے ویاکسن تیار کرنے کے منصوبہ پر کام ہورہا ہے ۔ ہندوستانی سائنس دانوں اور ریسرچ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تمام ممکنہ اقدامات کرتے ہوئے ویاکسن کو فروغ دیا جاتا ہے تو یہ عین انسانی بحران پر قابو پانے میں بڑی مدد ہوگی ۔ ہندوستان کے ICMR ۔ بھارت بائیو ٹیک کی اشتراکیت کے ساتھ COVID-19 کے لیے مشترکہ اقدامات شروع کئے ہیں ۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے ۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد میں ہندوستان نے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو یہ ایک تشویش کی بات ہے ۔۔