ٹرمپ کا غرور ٹوٹا ، بائیڈن و کملا کامیاب

, ,

   

بہار میں نئی بَہار ، مودی اور مجلس ناکام

تاریخی انتخابی نتائج

پٹنہ / واشنگٹن : ہندوستان اور امریکہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتیں ہیں ۔ جمہوریت میں انتخابات تہوار کی مانند ہوتے ہیں اور جب ان کے نتائج عوام کے حق میں برآمد ہوتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں تہوار بن جاتا ہے ۔ ہفتہ 7 نومبر کا دن ہندوستان اور امریکہ میں دو تاریخی نتائج کے لیے یاد رکھا جائے گا ۔ آج ہندوستان کی ریاست بہار کے اسمبلی الیکشن کا تیسرا و آخری مرحلہ ختم ہوا جس کے فوری بعد ایگزٹ پولس سامنے آئے ۔ بے شک ایگزٹ پول حقیقی نتائج نہیں ہوتے لیکن ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ تمام ایگزٹ پول ایک نتیجہ ظاہر کررہے ہیں اور ووٹوں کی گنتی کے بعد حقیقی نتیجہ کچھ اور ہو ۔ چیف منسٹر نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو نے مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں الیکشن لڑا جن کے مقابل لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی کے نوجوان لیڈر تیجسوی یادو کی قیادت میں کانگریس و دیگر جماعتوں پر مہاگٹھ بندھن نے انتخابی میدان سنبھالا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جن کی پالیسیوں سے عوام 6 سال سے بیزار ہیں ، بہار میں ایک درجن انتخابی ریالیاں منعقد کئے ۔ اس کے باوجود تیجسوی ، کانگریس لیڈر راہول گاندھی اور ایل جے ڈی کے چراغ پاسوان جیسے نوجوانوں نے نتیش اور نریندر کو بری طرح ناکام کیا ۔ اسد اویسی کی مجلس نے پھر ایک بار ’’ ووٹ کٹوا ‘‘ پارٹی کا رول ادا کرنے اور بالواسطہ غیر بی جے پی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔ شکر ہے کہ بہاری عوام بالخصوص سیمانچل والوں نے اس مرتبہ سوجھ بوجھ سے ووٹ دیا اور مجلس کو ہزیمت سے دوچار کیا ۔درج ذیل جدول میں مختلف ایگزٹ پولس دئیے گئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ منگل 10 نومبر کو جب ووٹوں کی گنتی ہوگی ، تب نتیش کمار کو وزارت اعلیٰ سے وداع لینا پڑے گا ۔

نتیش 15 سال چیف منسٹر رہے لیکن اختتامی مدت میں بہار کے عوام ان سے نہایت بدظن نظر آئے ۔ انہوں نے بنیادی مسئلہ بے روزگاری کو نظر انداز کیا ۔ تیجسوی اور مہاگٹھ بندھن نے بے روزگاری کے بنیادی مسئلہ کو انتخابی موضوع بنایا اور انہیں ووٹروں کی تائید حاصل ہوئی ہے ۔ دریں اثناء واشنگٹن میں ڈیموکریٹ لیڈر جوزف آر بائیڈن کو 3 نومبر کے صدارتی انتخاب میں طویل تجسس کے بعد آخر کار فاتح قرار دیا گیا ۔ انہوں نے پنسلونیہ میں کلیدی ریاست میں کامیابی کے ذریعہ وائیٹ ہاوس سے اقتدار سنبھالنے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ کے نشانہ کو عبور کیا اور پھر چند گھنٹوں میں ان کی عددی طاقت 538 کے منجملہ 290 تک پہنچ گئی ۔ موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ 214 تک محدود رہے جب کہ چار سال قبل ہلاری کلنٹن نے 223 ووٹ حاصل کئے تھے ۔ دہا 1990 کے اوائل میں سینئیر جارج بش کو ایک میعاد کے بعد شکست ہوگئی تھی ۔ تب سے ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے ایک اور صدر بن گئے جنہیں ایک میعاد کے بعد کراری ہار ہوئی ہے ۔ 2020 کی بائیڈن کی کامیابی کی ایک اور غیر معمولی بات ہندوستانی نژاد کملا ہیرس ہیں ۔پہلی سیاہ فام اور اولین خاتون جنوبی ایشیائی نائب صدر منتخب ہوئی ہیں ۔ ہندوستان میں مرکز کی مودی حکومت اور بہار کی نتیش حکمرانی کی طرح امریکہ میں ٹرمپ نظم و نسق کی عجیب و غریب پالیسیوں سے عوام نالاں تھے ۔ ٹرمپ نے ٹھوس ترقیاتی اقدامات کے بجائے لفاظی سے کام لیا اور بلخصوص خلیج کے عرب خطہ میں ان کے بعض اقدامات دنیا کی بڑی مسلم کمیونٹی کے خلاف دکھائی دئیے ۔ ٹرمپ کی ناکامی وزیراعظم مودی کے لیے بڑا جھٹکہ ہے جنہوں نے امریکہ پہونچ کر صدر کے حق میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے غلط نظیر قائم کی ۔