ٹی آر ایس حکومت کو کمزور کرنے والی ہڑتال

   

خیر اللہ بیگ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری
ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے خلاف چلائی جارہی مہم اور این آر سی کا خوف پیدا کرتے ہوئے کھڑا کیے جانے والے ہوّا سے تلنگانہ خاص کر شہر حیدرآباد کے مسلمانوں میں یہ غور و فکر بڑھ رہی ہے کہ آیا ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل تاریک بنایا جانے کی سازش کامیاب ہوگی ؟ اس خوف کو ہوا دینے کے لیے بعض گوشوں نے گمراہ کن بیان بازیاں شروع کی ہیں ۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت اور اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مل کر آسام سے لے کر مغربی بنگال تک اور کرناٹک سے لے کر تلنگانہ تک این آر سی کا ڈر پھیلانا شروع کیا ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے چند مسلم لیڈروں اور مٹھی بھر علماء طرح طرح کی دستاویزات کو قبل از وقت تیار کرلینے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ اس طرح کے مشورہ اچھی بات ہے لیکن اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ آپ کے پاس تمام دستاویزات اور ثبوت ہونے کے باوجود امکانی این آر سی میں نام شامل کیا جائے گا ؟ ۔ موجودہ حکومت کی جب نیت ہی مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے تو وہ اس پر خاموش یا علی الاعلان طریقہ کے ساتھ عمل کررہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان حالات میں مسلمانوں کو واقعی خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ غور کرنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ آیا ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے وطن ہندوستان سے علحدہ کرنے میں یہ لوگ کامیاب ہوسکیں گے ۔ این آر سی کے حوالے سے یہ کارروائی بہت بڑی تبدیلیاں لا سکتی ہے ۔ ایک تبدیلی خود مسلمانوں کے اندر آئے گی اور دوسری تبدیلی اگر مسلمان اپنے ماضی کے احیاء کی فکر کے ساتھ کمر کس لیں تو پھر وہ اپنے دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنادیں گے ۔ ہندوستانی مسلمان خاص کر حیدرآباد دکن کے مسلمانوں کو ان کے ماضی کی شخصیتوں مثلاً سرسید احمد خاں ، علامہ اقبالؔ یا بہادر یار جنگ کی عملی زندگی کا سبق یاد کروایا جائے تو یہ احساس جاگ جائے گا کہ ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کی بقا کے لیے مسلمانوں کا کسی نہ کسی حصے میں حکمراں کا ہونا ضروری تھا اور ضروری ہے ۔ مسلمانوں کو اپنی صدیوں پر محیط تاریخ کے اس اہم مسئلہ پر ذرا گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

کمزور قیادت ، بکاؤ قائدین یا ڈرپوک علماء کی تقاریر اور باتوں میں آکر خود پر خوف طاری کرلیتے ہوئے سطحی نظر سے کام لیں گے تو وہ غلط نتائج اخذ کرلیں گے ۔ ان کے غلط اندازے کا بھر پور فائدہ اٹھانے کا موجودہ حکمرانوں کو موقع مل جائے گا ۔ یہ طاقتیں بابری مسجد کی شہادت ، گجرات فسادات اور بعد ازاں ہجومی تشدد ، آرٹیکل 370 کی برخاستگی ، طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کے ذریعہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتے آرہی ہیں ۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جارہی رہا تو پھر مسلمانوں کی بڑی تعداد کو ہندوتوا کی پیروکاری میں شامل کرلیا جائے گا ۔ پھر اس کے بعد گھر واپسی رسومات عام کردی جائیں گی ۔ ہندوتوا کا فلسفہ یہی ہے ۔ آر ایس ایس اپنی برسوں کی جدوجہد کو اب کامیاب بنانے کی پر زور کوشش کررہی ہے ۔ مسلم کش پالیسیوں اور کارروائیوں نے ہی آج مخالف مسلم خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ حکمرانوں کی پھیلائی جانے والی نفرت ناعاقبت اندیشانہ رجحانات پھیلانے کا حصہ ہے ۔ اس کا بھی نتیجہ سامنے آئے گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ خوف میں مبتلا قومیں خود کشی کی مرتکب ہوتی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین کے حوالے سے اعلیٰ ترین بینائی رکھنے کے باوجود اندھے پن کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ ایسے میں فکری پختگی سے تہی دامن لیڈران نے اپنا سیاسی قد بڑھاتے ہوئے وقتی طور پر مسلمانوں کو جوشیلا بناکر خسارہ میں ڈال دیا ہے ۔ اب مرکزی قیادت کے منصوبے آسام ، مغربی بنگال سے ہو کر کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں داخل ہونے کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں ۔ ریاست تلنگانہ میں کے چندر شیکھر راؤ زیر قیادت ٹی آر ایس حکومت کو کمزور کرنے کے لیے کئی سازشیں تیار کرلی گئی ہیں اور اس سازش کا پہلا شکار ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین ہورہے ہیں ۔ کے سی آر حکومت کو زوال سے دوچار کر کے تلنگانہ میں بی جے پی کو طاقتور بنایا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر یا تو بی جے پی کے نرغے میں آچکے ہیں یا خفیہ معاملت کرتے ہوئے تلنگانہ کا اقتدار مرکزی قیادت کے حوالے کرنے کی تیاری کرچکے ہیں ۔ آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو طول دینے کے پیچھے کئی باتیں پوشیدہ ہیں ۔ کے چندر شیکھر راؤ نے اگر واقعی مرکز سے سودے بازی کی ہے تو یہ بہت بُرا ہوگا ۔ بظاہر وہ ایک سیکولر لیڈر ہیں ۔ انہوں نے تلنگانہ کے سیکولر مزاج کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ٹی آر ایس کا قیام ہی سیکولر بنیادوں پر ہوا ہے ۔ اس پارٹی کو کمزور کرنے والے واقعات کو روکنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ سیکولر عوام کو بالخصوص مسلمانوں کو تلنگانہ ریاست کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک سیکولر حکومت کو کمزور ہونے سے بچانے کی کوششوں کا حصہ بننے کی ضرورت ہے ۔ حضور نگر کے ضمنی انتخابات میں اگر مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوجائیں تو ٹی آر ایس یا کانگریس کو دھکہ پہونچے گا ۔ ٹی آر ایس کے لیڈروں کی زبانوں سے کبھی بھی مخالف مسلم فقرہ نہیں نکلے ۔ چونکہ اس وقت سیکولر کانگریس کمزور ہے اس لیے سیکولر ٹی آر ایس کو کمزور ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے ۔ سیکولر پارٹیاں ایک بعد دیگر کمزور بنا دی گئیں تو پھر فرقہ پرستوں کو من مانی کا موقع ملے گا ۔ ٹی آر ایس سربراہ نے مسلمانوں کے لیے کئی وعدے کئے لیکن ان میں سے صرف چند ہی پورے کیے ہیں ۔ لیکن انہوں نے بعض اچھے کام بھی کیے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔

مسلمانوں کے حق میں نمائندگی کے کانگریس کے وعدے اور کانگریس کی حکمت عملی کا بھانڈا تو پھوٹ چکا ہے ۔ اب مسلمانوں کے لیے اس کا متبادل کیا ہوسکتا ہے ۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن کو وہ لیڈر یا قائد مان کر جی رہے ہیں وہ اپنی سیاسی قوت کے عمل میں بند ہیں ۔ ان تک عوام کے سچے جذبات ، ان کی آہیں ، فکر و قوت اور بد دعائیں نہیں پہونچ رہی ہیں ۔ اگر مسلمانوں کے لیڈر کے اندر حساس دل اور ہمدرد انسانی کا جذبہ ہو تو وہ جگہ جگہ سیکولر ووٹ کاٹنے کا مکروہ عمل روک دیتا اور فرقہ پرستوں کو قوی ہونے کی راہ آسان نہیں ہوتی ۔ تلنگانہ میں بھی بی جے پی اس آسان راستے سے داخل ہورہی ہے ۔٭