ٹی وی چینلوں پر پھر پھٹکار

   

ہندوستان میں گذشتہ چند برسوں میں ٹی وی چینلوں نے جتنی نفرت اور فرقہ پرستی پھیلائی ہے اتنی شائد ہی کبھی کسی نے پھیلائی ہوگی ۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھنے والے فرقہ پرست اور تلوے چاٹنے والے اینکرس نے ایک طرح سے برسوں طویل مہم چلاتے ہوئے ملک کے ماحول کو انتہائی نفرت زدہ کردیا ہے ۔ عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کرتے ہوئے سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرت پھیلانے میںکوئی کسر باقی نہیںر کھی ہے ۔ ملک کو درپیش انتہائی اہمیت کے حامل مسائل اور عوام کی مشکلات کو پیش کرنے کی ذمہ داری اورفریضہ کو کہیں برفدان کی نذر کرتے ہوئے یہ مباحث کئے گئے کہ کس کو کیا پہننا چاہئے ۔ کس کو حجاب کرنا چاہئے یا نہیں ۔ کس کو حلال کھانا چاہئے یا نہیں۔ کس کو مدرسہ جاناچاہئے اور کہاں مندر بننی چاہئے ۔ ہر مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے سارے ملک کے ماحول کو زہر آلود کردیا گیا ہے ۔ گودی میڈیا کی جانب سے چلائی گئی اس مہم کے سماج پر واضح اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ کئی متفکر اور صحیح العقل گوشوں کی جانب سے گودی میڈیا کی اس زہر آلود مہم کے خلاف آواز بھی اٹھائی گئی ۔ تاہم جتنے بھی ٹی وی چینلس آج ملک میںکام کر رہے ہیں ان کی اکثریت نے اسی مہم کو اختیار کیا ہوا ہے اور ہر چینل دوسرے چینل پرسبقت لیجانے کی کوشش میںاس بات کی پرواہ کرنے کو تیار نہیںہے کہ اس کے ملک اور ملک کے ماحول اور امن و ہم آہنگی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ عوام پر کیا ہونے والا ہے ۔ کئی گوشوں نے اس مہم پر تنقیدیں کی ہیںاور اس سلسلہ کو روکنے کی ضرورت پر زوردیا ہے ۔ تاہم یہ سلسلہ رکنے کی بجائے مزید دراز ہوتا گیا اور ٹی وی چینلوںکے ذریعہ اشتعال اور نفرت پھیلانے کا سلسلہ اور تیز کردیا گیا ۔ اب ملک کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ نے بھی ٹی وی چینلوں پر پھٹکار لگائی اور سرزنش کی ہے ۔ عدالت کی رائے یہی تھی کہ ٹی وی چینلوں کے ذریعہ اشتعال انگیز مواد کو عام کیا جا رہا ہے جبکہ اس کو روکنا میڈیا کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ گودی میڈیا اور تلوے چاٹنے والے اینکرس کو کم از کم اب سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد اپنے رویہ کو بدلنے پر غور کرنا چاہئے ۔
جس بیمار اور غلامانہ ذہنیت کے لوگ ٹی وی اینکرس بنے بیٹھے ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ وہ خود کو صحافی سمجھتے ہیں ۔ حقیقت میں صحافی یا رپورٹر وہ ہوتا ہے جو عوام کی پریشانیوں اور مسائل کو حکومت کے علم میں لائے ۔ حکومت کے پروگرامس اور پالیسیوں کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس سے سوال کرے ۔ حکومت کو اس کے وعدے یاد دلاتے ہوئے ان پر عمل آوری کیلئے ماحول پیدا کیا جائے ۔ تاہم آج کے ٹی وی چینلس اپنے ٹی آر پی اور غلامانہ ذہنیت کے نتیجہ میں ایسا کرنے کی بجائے حکومت کے تلوے چاٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر چینل پر رات 9 بجتے ہی بکواس اور شور شرابہ شروع کردیا جاتا ہے ۔ ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ کس طرح سے ملک کے ماحول کو پراگندہ کیا جائے ۔ کس طرح سے سماج کے بڑے طبقات کے مابین نفرت اور خلیج کو وسیع کیا جائے ۔ کس طرح سے عوام کی توجہ ا ن کے بنیادی مسائل سے ہٹائی جائے ۔ انہیں روزگار کے مسائل سے دور کیا جائے ۔ انہیں معاشی مشکلات سے متعلق سوچنے کا موقع نہ دیا جائے ۔ انہیں حکومت سے سوال کرنے کے جذبہ سے محروم کیا جائے ۔ ہر مسئلہ کو مذہبی تعصب کی ذہنیت سے دیکھنے کا عادی بنایا جائے تاکہ عوام کو سہولت پہونچانے کی بجائے حکومتیں اور حکمران اپنا راج چلانے کے عادی ہوجائیں اور اس کے صلہ کے طور پر ان تلوے چاٹو اینکرس کو بھی اپنی بیماراور غلامانہ ذہنیت کا کچھ صلہ کسی بھی شکل میں مل سکے ۔
سپریم کورٹ نے آج جس رائے کا اظہار کیا ہے وہ سارے ملک کے عوام کی آواز ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چند مٹھی بھر جنون پسند اور بیمار ذہنیت کے لوگ اس طرح کے منفی اور اشتعال انگیز اور نفرت کو فروغ دینے والے ایجنڈہ کے عادی ہوگئے ہوں لیکن آج بھی ملک کے عوام کی اکثریت ایسی ہے جو چاہتی ہے کہ میڈیا اپنی غلامی کو ترک کرے اور اپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ دے۔ سماج میں نفرت پھیلانے اور منفی پروپگنڈہ کرنے کی بجائے سماج میں یکجہتی کو فروغ دینے اور مثبت ماحول پیدا کرنے پر توجہ دے ۔ عدالت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور ملک میں میڈیا کے تعلق سے جو منفی رائے بن گئی ہے اس کو دور کرنے کیلئے پہل کرسکے ۔ میڈیا اور سماج کی بھلائی اسی میں پوشیدہ ہے ۔