پارلیمنٹ میں مباحث بند

   

پی چدمبرم

سابق مرکزی وزیر داخلہ

پارلیمنٹ ایک ایسا مقام ہے جہاں بحث و مباحث ہوتے ہیں۔ مختلف مسائل پر بات کی جاتی ہے اور متعدد سیاسی جماعتوں کے ارکان مسائل اٹھاتے ہیں۔ حکومت سے جواب طلب کرتے ہیں باالفاظ دیگر ہم اسے مرکز مباحث کہہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ بحث و مباحث کا مرکز ہے۔ اسے بحث و مباحث کا مرکز ہی رہنا چاہئے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو صرف ایسا مرکز سمجھا جائے جہاں صرف بحث و مباحث ہوتے ہیں عملی اقدامات نہیں ہوتے ہیں تو شائد یہ پارلیمنٹ پر ایک دھبہ ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ پارلیمنٹ کا کام صرف قانون سازی کرنا یا قوانین کو منظور کرنا ہے۔ پارلیمانی نظام میں ایگزیکٹیو، حکومت کو ہمیشہ عوام کے ایوان میں اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے پارلیمانی نظام میں قانون سازی (قانون منظور کرنے) کی اجازت دی جاتی ہے تاہم ایوان میں اگر کوئی قانون بناء کسی بحث و مباحث کے منظور کیا جاتا ہے تو یہ مشکوک ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ مباحث ہی ہوتے ہیں جو پارلیمنٹ کی جانب سے منطورہ بل کو قانونی حیثیت عطا کرتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا آغاز ڈسمبر 2023ء کو ہوا اور 21 ڈسمبر 2023ء کو ختم ہونا تھا۔ حکومت نے اسی اجلاس میں اہم بلز (قانون سازی کرتے) پیش اور منظور کرنے کا ایجنڈہ طے کیا۔ پریسائڈنگ آفیسرس نے اپنا روایتی اور رسمی اخلاقی درس بھی دیا اور پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس پرامن انداز میں شروع ہوا۔ زائد از ایک ہفتہ تک دونوں ایوانوں میں کارروائی جاری رہی اور کئی ایک بلز منطور بھی کئے گئے لیکن ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ (لوک سبھا) مہوہ موئترا کی غیر منصفانہ طور پر پارلیمنٹ رکنیت ختم کردی گئی۔ ان پر پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے مبینہ طور پر پارلیمانی مراعات کے ناجائز استعمال کا ارتکاب کیا اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی۔ مہوہ موئترا کی پارلیمانی رکنیت منسوخ کئے جانے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے سخت اعتراض کیا گیا، برہمی ظاہر کی گئی۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج بھی کیا گیا لیکن یہ تمام چیزیں پارلیمنٹ میں خلل کا باعث نہیں ہیں۔ دوسری طرف راجیہ سبھا میں بھی ملک کی معاشی صورتحال پر طویل مباحث ہوئے۔ میں نے بھی خطاب کیا اور اپنی تقریر کا اختتام عزت مآب وزیر فینانس سے ایک سوال کے ساتھ کیا لیکن انہوں نے میرے سوال کا جو جواب دیا اس نے مجھے حیرت میں مبتلا کردیا۔ ان کا جواب عجیب و غریب تھا جس کا اندازہ اس بات سے لاگیا جاسکتا ہے کہ میں ہنوز یہ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ آخر انہوں نے کیا کہا؟ اُس کا کیا مطلب ہے؟ عزت مآب وزیر فینانس کا جواب سننے کے بعد میں خود کو اس بات کے لیے ذمہ دار قرار دینے لگا ہوں کہ شاید مجھ میں ہی اختصادیات یا انگریزی زبان باہم دونوں سمجھنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔
سکیوریٹی کی سنگین کوتاہی: 13 ڈسمبر کو ارکان پارلیمنٹ نے سکیوریٹی عملہ کے ان ارکان کو خراج عقیدت پیش کیا جو 13 ڈسمبر 2001ء میں اس وقت امر ہوگئے تھے جب پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد دونوں ایوانوں میں حسب معمول کارروائی شروع ہوئی لیکن دوپہر ایک بجے سے چند منٹ قبل دو نوجوان لوک سبھا کی وزیٹرس گیلری سے ایوان میں کود پڑے اور پھر اپنے ساتھ لائے CANISTERS سے دھواں چھوڑا (گیس چھوڑی) اچھا ہوا کہ ان لوگوں نے صرف گیاس کے CANISTER اپنے ساتھ لائے ورنہ اس سے بھی برا ہوسکتا تھا۔ جس انداز میں وہ گیس سے بھرے CANISTER پارلیمنٹ کی وزیٹرس گیلری میں لانے میں کامیاب ہوئے وہ کوئی بھی مہلک شئے بھی لاسکتے تھے۔ جیسے ہی نوجوان وزیٹرس گیلری سے ایوان میں کود پڑے، ارکان پریشان ہوگئے۔ ان میں ایک الجھن سی پیدا ہوگئی لیکن یہ اچھا ہوا کہ ارکان پارلیمان نے دونوں نوجوانوں پر جلد قابو پالیا اور مارشلس نہیں وہاں سے لے کر چلے گئے۔ واقعہ دراصل سکیوریٹی کی سنگین کوتاہی تھی۔ ویسے بھی یہ ایسا سنگین مسئلہ تھا جس پر وزیر داخلہ کی جانب سے از خود بیان دینے کی توقع تھی۔ اپوزیشن نے پر زور انداز میں وزیر داخلہ سے بیان دینے کا مطالبہ کیا جس کے بعد حکومت نے اس ضمن میں کسی بھی طرح کا بیان دینے سے انکار کیا۔ نتیجہ میں اس کا انکار ایوان میں گڑبڑ شور و غل اور خلل کا باعث بنا۔
اگر ہم اس معاملہ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر حکومت (وزیر داخلہ/ وزیراعظم) ایک سادہ سا بیان دیتے ہوئے یہ اعتراف کرتے کہ پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا وہ سکیوریٹی کی سنگین کوتاہی ہے اس ضمن میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں اور اس سلسلہ میں مزید بیان دیا جائے گا اس قسم کے بیان سے یقیناً پارلیمنٹ میں شوروغل گڑبڑ اور خلل کی صورتحال پیدا نہیں ہوتی لیکن ناقابل بیان وجوہات کے باعث اس معاملہ میں کوئی بیان نہیں دیا گیا نہ ہی اس پر کوئی بحث ہوئی۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ پر حالیہ حملہ کے بعد حکومت کے موقف اور 13 ڈسمبر 2001ء کو پیش آئے پارلیمنٹ حملہ کیس میں اس وقت کی حکومت کے موقف میں زبردست تضاد دیکھا گیا۔ 18 ڈسمبر کو مرکزی وزارت امور خارجہ نے حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں ایک بیان دیا۔ اسی طرح 18 اور 19 ڈسمبر کو پارلیمنٹ میں بحث ہوئی۔ اُس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے 18 اور 19 ڈسمبر 2001ء کو بیان دیا ساتھ ہی 19 ڈسمبر کو اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا۔ اس طرح جب 26-29 نومبر 2008ء میں ممبئی دہشت گردانہ حملے ہوئے اس کے بعد 11 ڈسمبر 2008 ء کو سرمائی اجلاس کے پہلے دن وزیر داخلہ (مسٹر پی چدمبرم) نے لوک سبھا میں ایک تفصیلی بیان دیا اور ایسا ہی بیان مملکتی وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں دیا اور دونوں ایوانوں میں اس واقعہ پر تفصیلی بحث ہوئی۔
کوئی مباحث نہیں کوئی تشویش نہیں: ماضی کی نظیروں کے باوجود حکومت کا یہی موقف رہا کہ عزت مآب اسپیکر پارلیمنٹ کی سکیوریٹی کے ذمہ دار ہیں۔ سرمائی اجلاس میں ہر روز اپوزیشن ارکان کی معطلی معمول بن گیا تھا لیکن حکومت نے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں 10 تا 12 بلز منظور کروائے جس میں 3 ایسے متنازعہ بل بھی شامل ہیں جو آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈنس ایکٹ کی جگہ لے چکے ہیں۔ ان بلز کی منظوری بنا کسی بحث و مباحث کے عمل میں آئی۔ اس تمام قضیہ میں جو بات بطور خاص نوٹ کی گئی وہ یہ کہ حکومت کو ایوانوں میں گڑبڑ خلل اور شور شرابہ کی کوئی پرواہ نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں میرے اس خوف اور خدشات میں اضافہ ہوا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ غیر متعلقہ ہوکر رہ جائے گی اور دوسری کمزور اور برائے نام جمہوریائی پارلیمنٹس کی طرح ایگزیکٹیو کے تابع ہوکر رہ جائے گی۔ سرمائی اجلاس 2023ء نے میرے ان خدشات کو تقویت بخشی ہے اس کے باوجود ایک امید ہے۔ میری جانب سے آپ سب کو نیا سال مبارک۔