پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاسانڈیا سے بی جے پی اورمودی کا خوف

   

اجئے گداورتھی
بی جے پی حکومت کا پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانا (یہ اجلاس 18 تا 22 ستمبر کو منعقد ہوگا ) اور اس اجلاس میں مبینہ طور پر ون نیشن ون الیکشن سے متعلق بل منظور کروانے کی کوشش یقیناً اس ( بی جے پی میں اپوزیشن اتحاد انڈیا سے پائے جانے والے خوف کی علامت ہے ) بی جے پی اور اس کی قیادت نے صحیح وقت پر اس بات کاد رست اندازہ لگایا کہ صورتحال اس کے قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی مقبولیت گھٹتی جارہی ہے اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کو نوشتہ دیوار پہلے ہی پڑھ لینا چاہئے تھا خاص طور پر دہلی بلدی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شرمناک شکست اور حالیہ عرصہ کے دوران کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے بعد اسے یہ قبول کرنا چاہئے تھا کہ اب ہندو کارڈ کام نہیں کرسکتا کیونکہ عوام مہنگائی بیروزگاری ، فرقہ پرستی کے بڑھتے واقعات سے تنگ آچکے ہیں ۔ ۔ یہ بھی حقیقت ہیکہ حکمران جماعت یا حکومت اور عوام کے درمیان یہ واضح فرق تھا کہ عوام اپنے تعلق کے احساس کو شمولیاتی ترقی میں تبدیل کرنا چاہتے تھے جبکہ حکومت اسے مذہبی اقلیتوں اور ان سے متفق نہ ہونے والے تمام لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھولنے کے عمل میں یا ان کے ذہنوں سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر کے اخرابی عمل میں بدلنا چاہتی تھی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے کے رحجان کا 2019 میں پہلے ہی مشاہدہ کیا جاچکا تھا اس کے باوجود لوگ جان چکے تھے کہ ایک منصوبہ بند انداز میں لوگوں کے ذہنوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ سیاسی فوائد کیلئے ہورہا ہے لیکن لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی برہمی کو بالاکوٹ واقعہ نے ہلکا کردیا اور بی جے پی کو بالا کوٹ نے بری صورتحال سے بچالیا ۔ 2019 کے بعد بی جے پی نے اپنا موقف مضبوط کرنے کیلئے پرزور انداز میں یہ تشہیر شروع کردی کہ ہم نے کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا جس سے ایک مضبوط ہندوستان کے احساس کو تقویت پہنچائی گئی ۔ 2024 کی طرف آتے آتے عوام نے ہندو تہذیب و ثقافت کی تائید و حمایت اور تصدیق کی اور اسے احساس سلامتی کا ذریعہ قرار دیا حکومت اور بی جے پی تو یہی چاہتی ہے ۔ اب چلتے ہیں دوسرے موضوع کی طرف اور وہ موضوع یہ ہیکہ آخر ہندوستانی سیاستداں کبھی بھی ریٹائرڈ کیوں نہیں ہوتے ؟ اگر دیکھا جائے تو سیاست کو ایک ملازمت یا پیشہ کے طور پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے زندگی بھر کیلئے عوامی خدمت کیلئے پابند عہد ہونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسٹ ) کے پولیٹ بیورو میں ان قائدین کی اکثریت پائی جاتی ہے یا ان لیڈران کا غلبہ ہے جن کی عمریں 70 سال سے تجاوز کر گئیں ہیں ہاں یہاں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی نے اپنے بوڑھوں بڑوں کو ان کا مقام دکھا دیا ہے جو کسی بھی طرح ریٹائرڈ ہونے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے لیڈروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہیں زبردستی مارگ درشک منڈل میں پہنچادیاگیا ہے ( ان لوگوں کی زندگی کس تکلیف دہ حالات میں گذر رہی ہے وہی بہتر جانتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں سیاستداں کتنا بھی بوڑھا ہوجائے یہاں تک کہ وہ بستر مرگ پر بھی پہنچ جائے تب بھی اسی کی یہی خواہش اور تمنا رہتی ہے کہ سیاسی شعبہ میں متحرک رہے اقتدار پر کسی نہ کسی شکل میں فائز رہے ۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں اور مختلف ملکوں میں چلائی جارہی سیاست کے برعکس ریاستہائے متحدہ امریکہ میں صدر صرف دو میعاد تک ہی صدر برقرار رہ سکتا ہے پھر اسے ریٹائرڈ زندگی گذارنی پڑتی ہے ۔ مختلف ملکوں اور متعدد عالمی سطحوں و باوقار تعلیمی اداروں میں وہ لکچرس دے کر لاکھوں ڈالرس کمالیتے ہیں یا پھر عوام کی بہبود کے کام کرنے لگتے ہیں چیاریٹی کے کاموں سے وابستہ ہوجاتے ہیں ۔ کئی اقوام متحدہ یا پھر عالمی غیر سرکاری تنظیموں کیلئے خدمات انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ عالمی آبادی کو ماحولیاتی آلودگی سے بچائیں ۔ صحت عامہ کو بہتر بنائیں ۔ دوسری جانب ایسے کئی مشہور و معروف اور عوام کے پسندیدہ لیڈران بھی ہیں جنہوں نے اپنی بڑھتی عمر کے پیش نظر سیاست اور اقتدار کو بڑی خوشی کے ساتھ الوداع کیا ہے تاریخ میں اس کی بہترین مثال نیلسن منڈیلا کی ہے جنہوں نے جنوبی افریقہ کے صدر کی حیثیت سے اپنی پہلی میعاد کے ختم پر رضاکارانہ طور پر اقتدار چھوڑا تھا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے باقی ایام ارکان خاندان کے ساتھ گذرنے ، کتب کا مطالعہ کرنے اور کچھ تحریر کرنے میں گذارا لیکن اس طرح کی روش کسی ہندوستانی سیاستداں نے اختیار نہیں کی ۔ ہندوستان میں تو یہ حال ہیکہ ایک مرتبہ آپ اگر سیاسی میدان میں کود پڑتے ہیں تو مرتے دم تک سیاستداں ہی رہتے ہیں ۔ مہا تماگاندھی اس طرح کے سیاستدانوں کی قبیل میں شامل نہیں ہے وہ کبھی بھی اقتدار کا حصہ نہیں رہے ہندوستان اور ہندوستانیوں کی بہتری ان کے روشن مستقبل ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کو انہوں نے اہمیت و ترجیح دی تب ہی تو مہاتما گاندھی بننے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہیکہ انتخابات میں باہوبالی باالفاظ دیگر غنڈے اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے عناصر غیرمعمولی انداز میں کامیابی حاصل کر تے ہیں لیکن عوام حقوق کے تحفظ کیلئے زندگی بھر بھوک ہڑتال کرنے والی منی پور کی ایرم شرمیلا جب انتخابی میدان میں اترتی ہیں تو انہیں صرف 200 ووٹ حاصل ہوتے ہیں اسی طرح میدھا پاٹیکر نے عوامی کاز کیلئے اپنی زندگی وقف کردی لیکن ووٹوں کیلئے عوام کو ان پر بھروسہ نہیں ہمارے سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں عوام کے حقیقی خدمت گاروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے وہ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں بھی سماجی جہدکار بننے کی بجائے سیاست سے چمٹے رہتے ہیں۔