پانچ فیصد وی وی پیڈس کی جانچ ہونی چاہئے۔ سابق سی ای سی ایس وائی قریشی 

,

   

’’ سیاسی جماعتوں کو طویل مدت سے ای وی ایم مشینوں اور وی وی پیڈس اور الیکشن کمیشن کی حساسیت پر اٹھائے جارہے سوالات کے متعلق جاری بحث کو سمجھنا چاہئے جو دنیا بھر میں ہندوستان کی غلط شبہہ کا تاثر دے رہی ہے‘‘۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ( سی ای سی ) ایس وائی قریشی نے کمیونکیشن اور سوشیل مارکٹنگ میں ڈاکٹریٹ کیا ہے۔

انہیں قابل کمشنروں میں سے ایک تسلیم کیاگیا ہے‘ جو اپنی رائے بے خوف اور آزادی سے رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی معیاد 2010سے 2012کے دوران کئی ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کا منصوبہ تیار کیا اور الیکشن کرائے ہیں۔انہوں نے الیکشن کمیشن میں درکار کئی اصلاحات بھی لائے ہیں۔

انہوں نے انڈین انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ آف ڈیموکریسی اینڈ الیکشن مینجمنٹ ( ائی ائی ڈی ایم) کا قیام عمل میں لایا اور قومی ووٹرس ڈے کی بھی شروعات کی ۔ ہریانہ کیڈر1971کے ایک ائی اے ایس افیسر قریشی ہریانہ اور یونین گورنمنٹ کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

اکنامک ٹائمز سے ان کی بات چیت کے کچھ اقتباسات یہاں پر پیش کئے جارہے ہیں

سوال۔ سب سے بڑا جمہوری تہوار شروع ہوگیا ہے۔ آپ نے الیکشن کمیشن کو اندر سے دیکھا ہے۔ جس طرح الیکشن جاری ہے اس میں سابق کے انتخابات میں کیا فرق محسوس ہورہا ہے؟

جواب ۔ پہلے کی طرح ہے کیونکہ جو پچھلی مرتبہ ہوا تھا اب کی مرتبہ اس سے کچھ بڑا ہے۔ہندوستان میں ہونے والا ہر الیکشن پچھلے الیکشن سے بڑا ہوتا ہے۔

یقیناً1951کے بعد ہندوستان میں دنیا کے بہت بڑے الیکشن ہوئے ہیں‘ اس میں بڑے سے بڑے ہوئے ہیں۔ معیار میں بھی تبدیلی ائی ہے۔

مجموعی طور پر میں کہہ سکتاہوں کہ روز بہ روز ہمارے الیکشن نظام کے درست راستے فروغ پارہے ہیں۔اس طرح کے بڑے الیکشن کرانا ہے بڑا کام ہے۔

ای وی ایمس اور وی وی پیڈس مشینوں کا استعمال بین الاقوامی توجہہ کا سبب بنا ہے

سوال۔ دو دہے قبل کچھ ریاستوں میں رائے دہی کافی بدنام ہوئی۔ یہاں پر دھاندلیوں‘ بوتھ پر قبضے اور بڑے پیمانے پر تشدد کی شکایتیں ائیں۔

آج حالات تبدیل ہیں۔ اس میں سے زیادہ تر شکایتیں اب ختم ہوگئی ہیں جس کا سہرہ ای وی مشینوں اور بڑے پیمانے پر سکیورٹی فورسس کی تعیناتی کے سرجاتا ہے۔ مگر اب سیاسی جماعتیں ای وی ایم مشینوں او روی وی پیڈس پر سوال کھڑا کررہے ہیں۔

آپ اس کے متعلق کیاکہتے ہیں۔

جواب ۔ الیکشن کمیشن کی یہ بد بختی ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں ای وی ایم مشینوں پر اعتبار کے متعلق سوال کھڑا کرتے ہیں ۔

جب سے ای وی ایم 1982میں متعارف ہوا ہے ‘ اس پر سوال کیاگیا ہے اور عدالت میں اس کو چیالنج بھی کیاگیا ہے۔

اس کے تمام ٹسٹ کئے گئے جس میں قانونی جانچ بھی شامل ہے۔ ایک مقام پر ہر سیاسی جماعت یا پھر دوسری ای وی ایم پر اعتبار کے متعلق سوال کھڑا کرتی ہے۔

وہ اس مسلئے کو اس وقت اٹھاتے ہیں جب وہ الیکشن ہار جاتے ہیں اور یہ بھی نہیں سونچتی ان ہی ای وی ایم مشینوں پر انہوں نے پہلے الیکشن میں جیت حاصل کی تھی۔اس کی شروعات بی جے پی لیڈر لال کرشنا اڈوانی کے کی کتاب سے ’’ڈیموکریسی اٹ ریسک‘‘ سے ہوئی تھی۔

جب تمام سیاسی جماعتوں نے مذکورہ مشینوں پر دھاڑے مار کرروہے تھے۔ میں پھر سی ای سی مقرر ہوا اور تمام سیاسی جماعتوں کا 2010اکٹوبر میں اجلاس طلب کیا۔ اس اجلاس میں تمام سیاسی جماعتیں وی وی پیڈس مشینوں کو متعارف کروانے پر رضا مندی ظاہر کی‘ مسئلہ حل ہوگیا تھا۔

ہم نے فوری مشینیں تیار کرنے والے کمپنیوں سے وی وی پیڈس مشین تیار کرانے پر رضامندی ظاہر کی۔ ہمارے پاس ائی ائی ٹی پروفیسرس کی پانچ رکنی خود مختار ٹیم ہے جس سے ہم وی وی پیڈس کے انحصار کی جانچ کا استفسار کیا۔

جب یہ تیار ہوگیاتو ہم نے پانچ مختلف موسمی حالات میں اس کی جانچ کی ۔ ایک سال بعد ہم نے ان کی انہیں شہروں میں دوبارہ جانچ کی‘ اس مرتبہ یہ سو فیصد درست ثابت ہوئے۔

کمیشن نے اور کچھ جانچ کی پھر بالآخر اس کو ریاستی اسمبلی الیکشن میں متعارف کروایا۔ اب مشینیں پوری طرح تیار ہیں اور 2019کے عام الیکشن میں آپ وی وی پیڈس دیکھیں گے۔اس کے بعد بحث کو ختم ہوجا نا چاہئے تھا۔

مگر اب دوسری بحث شر وع ہوگئی ہے‘ سیاسی جماعتو ں کا دعوی ہے کہ ایک فیصد وی وی پیڈس مشینوں کی گنتی بہت کم ہے اس کو زیادہ کرنا چاہئے‘ کچھ کہتے ہیں تیس فیصد اور کچھ پارٹیاں پچاس فیصد کی مانگ کررہے ہیں۔

ذاتی طور پر میں بھی یہ مانتاہوں کہ ایک فیصد بہت کم ہے ‘ پانچ فیصد کی گنتی ہونی چاہئے۔ کمیشن ماہرین سے رائے حاصل کررہا ہے کہ کتنے فیصد کی گنتی ہونی چاہئے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کیو نکہ الیکشن کمیشن اس مسلئے کو زیر التوا رکھے ہوئے ہیں

سوال ۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ای وی ایم او روی وی پیڈس مشینوں کو سیاسی رنگ دینے کا معاملے بین الاقوامی سطح پر ای سی کی امیج کو خراب کررہا ہے؟

جواب ۔جیسا میں نے کہاہے کہ ہندوستان کے انتخابات دنیا کے سب سے بڑے اور قابل احترام الیکشن ہیں۔ مذکورہ سیاسی جماعتوں کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ ای وی ایم اور وی وی پیڈس پر اٹھائے جانے والے قومی سطح پر ہندوستان کی شبہہ کے لئے الیکشن کمیشن ایک منفی اثر چھوڑ ے گا۔

غیر ضروری اور غیرواجبی بحث جمہوریت کے لئے بہت خراب بات ہے۔

انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی ایک ادارے کے اعتبار پر سوال کھڑا کرنے بہت خطرناک بات ہوگی۔

انہوں نے دیگر سوالات کے جواب میں کہاکہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن پر اعتبار کرنا چاہئے اور نوٹا کے متعلق کہاکہ اس کے اضافے سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ بہت سارے لوگوں کو ان کے معیار کا امیدوار سیاسی پارٹیوں نے نہیں دیا ہے۔