پاکستان ، مستقبل کا سری لنکا؟

   

معاشی زبوں حالی اور پریشانیاں آج کے ماحول میں مختلف ممالک کو پریشان کرنے لگی ہیں ۔ کئی ممالک ایسے ہیں جو معاشی دیوالیہ کے قریب پہونچتے جارہے ہیں ۔ صرف اپنے بھرم کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کرتے نظر آرہے ہیں ۔گزشتہ سال سری لنکا معاشی دیوالیہ کا شکار ہوگیا تھا ۔ لوگ پٹرل اور غذائی اجناس کیلئے سڑکوں پر اتر آئے تھے ۔ طویل جدوجہد کے باوجود انہیں پٹرول دستیاب نہیں ہورہا تھا ۔ قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ ملک میں ادویات کی بھی قلت پیدا ہوگئی تھی ۔ بجلی ناپید ہوگئی تھی ۔ طویل بلیک آؤٹ معمول بن گیا تھا ۔ عوام سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنے لگے تھے ۔ ابتدائی مدافعت کے باوجود ملک کے صدر کو نہ صرف استعفی دینا پڑا تھا بلکہ وہ ملک سے فرار بھی ہوگئے تھے ۔ سری لنکا بحران کے وقت سے ہی یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ پاکستان بھی معاشی دیوالیہ کا شکار ہوجائے گا ۔ اب پاکستان جن حالات میں گھر گیا ہے وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ بھی سری لنکا کے نقش قدم پر آگیا ہے ۔ کسی بھی وقت وہ بھی معاشی دیوالیہ کا شکار ہوجائے گا ۔آج ملک میں مہنگائی بے انتہا ہوگئی ہے ۔ صرف پٹرول کی قیمت اتنی ہے کہ لوگ اس کو برداشت نہیں کرپارہے ہیں ۔ آٹے کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوگئی ہیں ۔ اب آٹے اور دال کے لئے مارپیٹ ہونے کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں ۔سارے ملک میں بلیک آؤٹ معمول بن گیا ہے ۔ کئی کئی گھنٹوںتک بجلی سربراہی منقطع رہنا معمول بن گیا ہے ۔ حکومت بیرونی بلز تک ادا کرنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہے ۔ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہوگئے ہیں اور آئندہ تین ہفتوں کے بعد پاکستان اپنے قرض یا اس کا سود ادا کرنے کے موقف میں نہیں رہے گا ۔ پاکستان کی حکومت بھی حالات کو بہتر بنانے جدوجہد کررہی ہے ۔ یہ جدوجہد صرف قرض کے حصول تک محدود ہے اور بین الاقوامی ادارے قرض بھی ان کی اپنی شرائط پر دینا چاہتے ہیں ۔ یہ شرائط پاکستان کیلئے اور بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے ۔ قیمتوں میں اضافہ اور سبسیڈی میں مسلسل کمی کو پاکستان کے عوام برداشت نہیں کرپائیں گے ۔ پاکستان کے جو دوست اور حلیف ممالک ہیں وہ بھی اب پاکستان کی مدد یا پھر اسے بحران سے نکالنے کیلئے امداد فراہم کرنے تیار نظر نہیں آتے۔
پاکستان کی جو حالت آج ہے اس کیلئے خود پاکستان اور اس کی حکومتیں ذمہ دار ہیں جس طرح کی افراتفری اور بدنظمی پاکستان کے سیاسی ماحول میں ہے وہ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار ہے ۔ کرپشن انتہائی عروج پر ہے ۔ سیاسی بدنظمی اور افراتفری نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہونچادیا ہے ۔ حکومتوں نے جس عدم ڈسپلن اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ملک کی تباہی کا باعث بنا ہے ۔ کسی منظم انداز کو اختیار کئے بغیر بے ہنگم انداز میں کام چلایا گیا ۔ معیشت کو مستحکم کرنے کی بجائے کام چلاؤ انداز اختیار کیا گیا ۔ معاشی ترقی کیلئے کوئی منصوبے نہیں بنائے گئے ۔ کوئی پروگرام ایسا نہیں بنایا گیا جس سے ملک کی ترقی ممکن ہوسکے ۔ صرف بیرونی قرض حاصل کرتے ہوئے کام چلایا گیا ۔ سیاسی اختلافات کو شخصی دشمنی اور عناد میں تبدیل کرتے ہوئے حالات کو مزید ابتر کیا گیا ۔ بیرون ملک دولت جمع کرنے میں بھی حکمران طبقہ نے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ بیرونی شہریت حاصل کرکے دولت لوٹنے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی گئی ۔ ملک یا ملک کے عوام کی حالت کو سدھارنے کے اقدامات نہیں کئے گئے ۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کی بجائے وقتی طور پر کام چلانے کی کوشش کی گئی ۔ اسی کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے حالات حکومت کے کنٹرول سے بھی باہر ہیں ۔ حکومت اب جدوجہد کے باوجود حالات کو سدھارنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے ۔ صرف بیرونی قرضہ جات کے حصول کے ذریعہ ملک کے حالات کو قابو میں نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کیلئے جامع منصوبہ بندی اور عزم و جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان کی حکومتیں اس عزم و حوصلے سے عاری نظر آئی ہیں ۔
حالات کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے ہوں گے ۔ صرف اڈھاک بنیادوں پر اقدامات کرنے سے مسئلہ کی یکسوئی نہیں ہوسکتی ۔ اس کے لئے جہاں عوام کو راحت دینے پر توجہ کی ضرورت ہے وہیں سخت فیصلے بھی کرنے ہی ہوں گے ۔ اس کیلئے ملک میں سیاسی عزم و اتحاد کا فقدان ہے ۔ اس صورتحال کو بدلنا ہوگا ۔ ملک کے عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔ حکومت کو بے تکان جدوجہد کرنی ہوگی ۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا ۔ حکومت کو بے تکان جدوجہد کرنی ہوگی ۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا ۔