پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے پر مجبور

   

اسلام آباد ؍ نیویارک : آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ تین ارب ڈالر کے نئے بیل آوٹ پروگرام پرعمل درآمد کے خطرات ’’غیر معمولی طور پر بہت زیادہ تھے‘‘۔ آئی ایم ایف نے ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں اپنی مداخلت روکنے کیلئے پاکستان پر سخت شرائط عائد کردی ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کیلئے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے بارے میں منگل کے روز اپنی اسٹاف رپورٹ جاری کی، جو گزشتہ سال کے دوران معیشت کے خراب نظم ونسق کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی پر چارج شیٹ کے مانند ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت نے کس طرح ایکسچنج ریٹ مارکیٹ کو مسخ کیا اور جب اس پر دباؤ بڑھتا گیا تو مرکزی بینک اس کی مناسب وضاحت نہیں کرسکا۔ پاکستان نے 12 جولائی 2023 سے اپریل 2024 تک کی مدت کیلئے تین بلین ڈالر کے پیکج کے بدلے میں 13دیگر کارکردگی اور مقررہ نشانہ کو قبول کرنے کے علاوہ 10بڑی شرائط قبول کی ہیں۔آئی ایم ایف نے کہا کہ ایس بی اے نے جو تفصیلات طے کی ہیں ان میں نئی حکومت کیلئے اگر وہ چاہے تو نئے پروگرام شروع کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔حکومت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ سال 2023-24 میں قومی اسمبلی سے پیشگی منظوری سے قبل کسی بھی نئے ٹیکس معافی کا نہ تو آغاز کریگی اور نہ ہی کوئی نیا ٹیکس چھوٹ دے گی ۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کافی پیچیدہ اور کثیر جہتی تھے اور خطرات غیر معمولی حد تک زیادہ تھے ،ان کو حل کرنے کیلئے متفقہ پالیسیوں کے مستقل نفاذ کے ساتھ ساتھ بیرونی شراکت داروں کی جانب سے مسلسل مالی مدد کی ضرورت ہے۔ اور خطرات کو کم کرنے اور میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے پروگرام کے معاہدوں کا مستقل اور فیصلہ کن نفاذ ضروری ہوگا۔