پاکستان کی تقسیماس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
شاہ مشرق صبح کے اجالے کے اشہب پر سوار سویرے کے تیر مارتا ہوا شب کے سینے کو چھلنی کرتا ہوا افق کے سینے پر سوار ہوتا جاتا ہے ۔ اجالے کا ڈیرا تان دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ لمحہ عارضی ہوتا ہے ۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر قوم کو عروج کے پیر ملتے ہیں۔ لیکن یہ پیر قلیل سی مدت کے لئے قدرت عطا کرتی ہے ۔ پھر وقت آتا ہے تو یہ سہاراچھین لیا جاتا ہے۔ خواہ کوئی قوم کیوں نہ ہو قوم ثمود جیسی قوم دنیا میں آج تک پیدا نہیں ہوئی ۔ اتنی لحیم شحیم کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہ چٹانوں کو چیر کر گھر بناتے ہیں پھر اس قدر خوشحال کہ کوئی دوسری قوم پیدا نہیں ہوئی لیکن جب اللہ کے نمائندوں کو تسلیم نہیں کیا تو چرخ کج رفتار کے تیور بدل گئے ۔ قدرت کا کوڑا حرکت میں آیا ۔ وہ قوم جس کو چھونے کی کوئی جرأت نہ کرسکا وہ قوم خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی ۔ اس کے چمن میں وقت نے ایسی خزاں لائی کہ یہ قوم صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دی گئی کہ ان کی نسل بھی باقی نہیں رہی ۔ ثمود جیسی قوم تاریخ کے صفحوں میں گم ہوگئی ۔ ان کا نام بطور عبرت باقی رہ گیا ۔ قوم ثمود کو اللہ نے اس کے کئے کی سزا دی ۔ اسی لئے آقائے دوجہاں ﷺ نے اللہ سے ہمیشہ دعا کی کہ میری قوم کو قوم ثمود کی طرح تباہ نہ کر ۔ شاید یہ دعا قبول ہوگئی اور ہم ابھی تک دھرتی پر موجود ہیں ۔ ورنہ ہم نے کونسا گنا ہ نہیں کیا۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھاکر پلٹ دیا گیا ۔ سارے لوگ پتھر بن گئے ۔ قوم شعیب ، قوم صالح ، قوم اسرائیل ، قوم لوط غرض کتنی ہی قوموں کے چراغ وقت کی ہواؤں نے بجھا دیئے ۔ اور مسلمان اب تک زینت جہاں بنے ہوئے ہیں ۔ آج ہر رنگ کے ، قسم قسم کے گناہ کا ارتکاب کرنے کے باوجود ان کا وجود مصلحت خدا وندی کا مظہر ہے؎
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
شاید یہ قوم دنیا کے وجود کے ساتھ فنا ہوگی ۔ ساتھ ہی قدرت نے ہم سے عجیب مذاق کیا ہے ۔ ایک طرف مغلوں کو شہنشاہیت کا تاج بخش دیا ۔ دوسری طرف مسلمانوں کو سلطنت خداداد عطا کردی ۔ جس وقت پاکستان بنا نعرہ لگایا گیا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ ہم نے بھی یہی سوچا کہ انقلاب آئے گا اور واقعتاً لا الٰہ الا اللہ کا اعلان ہوگا لیکن حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی ۔ جھوٹ ۔ قتل و خون و غارت گری ، لینڈ گرابنگ ، غنڈہ گردی ، اغوا ، چور بازاری ، بلیک مارکٹنگ ، لوٹ مار پاکستان کے زیادہ تر شہریوں کا شیوہ بن گیا ۔ مغربی پاکستان کے مسلمان شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ یہودیوں کا طرح اللہ کے محبوب بندے ہیں اور گناہ پر گناہ کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔ انہوں نے اسی لئے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ جانوروں کی طرح سلوک کیا۔ ملازمین کی طرح جانوروں سے بدتر ۔ اس کا ردعمل یہ ہوا پاکستان تباہ ہواکہ حکومت الٰہ یعنی پاکستان کا قیام اسلامی اصولوں کی پاسداری کے لئے ہوا تھا ۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہرایک سے انصاف ہوگا ۔ پاکستان جنت ارضی رہے گا ۔ ہرکسی کو امن و چین ہوگا ۔ قتل و غارت گری نہیں ہوگی ۔ امن چین رواداری ہوگی ۔ لیکن اسلام پاکستان میں مذاق بن گیا ۔ 1917 سے 1971 تک اس قلیل سے وقفہ میں نوزائیدہ سلطنت وقت کی شمشیر کے نیچے ذبح ہوگئی ۔ پردۂ زنگاری میں چھپا ہوا معشوق ایسے ہی وقت کا انتظار کررہا تھا پاکستان کے وجود کے دو ٹکڑے کرنے کی سازش کامیاب کردی ۔ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں پھینک دیا گیا ۔ مذہب ایک ، رسول ایک ، عقیدہ ایک ، حرم ایک ، کتاب ایک لیکن صرف زبان کی بنیاد پر یہ ملک ایسے تقسیم ہوا کہ دوبارہ اتحاد کی کوئی صورت نہیں ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنی تاریخی تقریر میں جناب محمد علی جنا ح نے جب اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تو وہ شیر ملت جس کے سامنے کوئی آواز اٹھانے کی جرأ ت نہ کرسکتا تھا ایک چوہے نے چی چی کرکے بنگالی زبان قومی زبان ہوگی اس کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی میر جعفر نے سیاہ پرچم لہراکر بنگالی زبان کی تائید کی اور تقسیم کا بیج بویا پھر اس کے بعد تباہی و بربادی کا ایسا منظر آسمان نے دیکھا کہ خون کے آنسو رونا پڑا ۔ شیخ مجیب کے مکان پر پورے اہتمام سے بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرانے کی رسم ادا کی گئی ۔ مارچ پاسٹ بھی ہوا ۔ جب کہ ڈھاکہ ٹی وی نے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ۔ مشرقی بنگال کی قومی آزادی کے تئیں تحریک شروع ہوگئی ۔ عوامی لیگ نے مسلم لیگ کی جگہ لے لی ۔ اس کی ذیلی تنظیم پورگوبنگلہ سرامک آندولن نے یہ اشتہارتقسیم کیا کہ مشرقی بنگال کی قومی آزادی شروع ہوچکی ہے اور وطن پرستو ہتھیاراٹھالو ۔ دشمن فوج کا مقابلہ کرو اور اس کو ختم کردو ۔ دشمن کے راستے بند کردو ۔ سڑکیں کاٹ دو ۔ پلوں اور ریلوے لائنوں کو اڑادو ۔ ہم کو بادشاہی نظام کی زنجیریں توڑ کر پھینک دینی ہیں ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی نے اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال میں بنگالیوں کے بڑے ورکر جمع ہوگئے جہاں انہیں فوج کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ سید پور علاقہ میں مسلح طلبہ کے ایک تھانے پر قبضہ کرلیا اور سینکڑوں گھروں کو جلادیا ۔ دی پاکستان ٹریجڈی کے امریکی مصنف رشک روک ولیم نے لکھا کہ مقتولوں کی یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے کم نہیں تھی ۔ ہزاروں لاشوں کو دریا میں بہادیا گیا ۔ 16ڈسمبر 1971 کی وہ منحوس تاریخ تھی جو پاکستان کی تاریخ میں سیاہ حرفوں میں لکھی جائے گی ۔ شاید مغربی پاکستان کے لہو سے تحریر کی جائے گی۔ جو انمٹ ہے ۔ لاکھوں اردو بولنے والوں کا بے دریغ قتل کیا گیا ۔ خون کے سمندر رواں ہوئے۔ گویا قیامت صغریٰ برپا ہوگئی ۔ عصمت دری ہوئی ۔ بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا ۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چیرے گئے۔ باپ اور بھائیوں کے سامنے بہنوں کی چھاتیاں کاٹی گئیں۔ عصمت دری ہوئی ۔ انسان درندہ بن گیا ۔ پاکستان ڈوائیڈڈ نامی کتاب کے مصنف نے لکھا کہ حقیقت یہ کہ پاکستان تقسیم ہونے کا غم کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ یہ سانحہ ملی تاریخ کے سانحوں میں ایک دردناک ترین سانحہ ہے۔ کل ملک کا آدھا حصہ رہ گیا ۔ جس طرح قوم کو ذلیل کیا گیا بھلایا نہیںجاسکتا ۔ جنرل ٹکا کے منہ پر ایک بنگلہ دیشی نے تھوک دیا اور ایک اور بنگالی نے جنرل یحییٰ پر جوتا پھینک مارا اور ان کو قصاب کہا ۔لوگوں پر پاگل پن سوار تھا ۔ مکتی بہانی کو کھلی چھوٹ دی گئی ۔ وہ اپنے خون کی پیاس غیر بنگالیوں کے لہو سے بجھارہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی سنگینوں سے غیر بنگالیوں کے ٹکڑے کررہے تھے۔
ایک وجہ یہ تھی کہ پنجابیوں یا مغربی پاکستان والوں کا بے رحمانہ رویہ ۔ انہوں نے شروع سے بنگالیوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا ۔ بلکہ ان کو انسان سمجھا ہی نہیں ۔ جب کہ رقبہ میں ، آبادی میں ، وسائل میں مشرقی پاکستان زیادہ بڑا تھا ۔ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے ۔ کسی اور کو نہیں حضرت بلال کو حج میں کعبہ پر چڑھ کر اذاں دینے کا حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں غلام اور آقا کا کوئی تصورنہیں ۔ راقم الحروف نے 1978 اور1998 میں کراچی اور جدہ میں بنگالیوں کو جانوروں کی طرح کام کرتے دیکھا ہے۔ دھوبی ہے تو بنگالی ، حجام ہے تو بنگالی ، ڈرائیور ہے تو بنگالی ، سودا سلف لانے والے بنگالی ، نوکر بنگالی ، کچرا صاف کرنے والے بنگالی ، روڈ پر جھاڑو دینے والے بنگالی ، غلیظ سے غلیظ کام کرنے والا بنگالی ۔ غرض یہ کہ آقاوں کی طرح حکم چلانے والے پنجابی اور نوکروں کی طرح کام کرنے والے بنگالی ۔ یہ اسلام کے اصول کے خلاف ہے یا نہیں ۔ کم سے کم بنگالی کرکٹ میں بنگالی صفر کے برابر ، بنکوں میں بنگالی کم سے کم ، بزنس میں بنگالی کم سے کم ، کالج میں بنگالی کم سے کم جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں ظاہر ہونا تھا اور ہوا ۔ جب مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اردو کے تعلق سے تائیدی بیان دیا تو احتجاج عروج پر پہنچ گیا ۔ اسی لئے علامہ نے 1970میں وارننگ دی تھی کہ مسلمانوں تمہیں 1970کے آخر تک ایک ایسی خطرناک صورتحال کا سامنا ہوگا جسے تم برداشت نہ کرسکو گے ۔ بڑے پیمانے پر کشت و خون ہوگا ۔ حالات دیکھ کر تعلیم یافتہ طبقہ ، عورتیں اور بچے بنگال چھوڑکر چلے گئے ۔ انہوں نے خوب خوب کمائی کی اور اسلام کا نام باقی نہ رہا۔کلچر، تہذیب ، عبادتیں ، بھائی چارگی، آخرت گویا سب کچھ طاق نسیاں ہوگئیں۔ فضل الحق جیسے لیڈر نے ہٹلر کے گویبلز کا کردار ادا کیا ۔ اور جھوٹ اتنا بولا کہ سچ بھی شرما گیا۔ اصل وجہ بھٹو اور مجیب میں اقتدار کی ہوس نے پاکستان کے ٹکڑے کردیئے۔ تم ادھر ہم ادھر کا نعرہ لگاکر دونوں میر جعفر اور میر صادق نے لاکھوں انسانوں کا قتل کروادیا اور یہ بھول گئے کہ ؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
الطاف گوہرنے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کے محلہ داراب گنج میں 600 غیر بنگالی افراد کا قتل ہوا۔ ہرطرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ راستے میں ، تالاب، گھروں میں ہر طرف ۔ مسلم لیگ 1947 جیسی ساعت نہ رہی۔ عبدالمنیم خاں جیسے حکمرانوں نے مسلم لیگ کو ڈرائنگ میں محصور رکھ دیا۔ یوں 1971میں ایک سال تک مشرقی پاکستان کی ندیوں میں پانی سے زیادہ خون بہا ۔ تنظیم بچھو نے بھی قیامت ڈھادی۔ ہزاروں بنگالیوں کا قتل کیا۔ پلوں ، سڑکوں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ قدرت نے اس قوم کو اصلاح کا بہت موقع دیا لیکن ضائع کردیاگیا تب اللہ نے فیصلہ کیا اور سزا سنائی ۔جو تقسیم کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تاجروں ،سرمایہ داروں ، بیوروکریٹس ، سیاستدانوں ، قومی جنرل جیسے جنرل ایوب خاں ، جنرل تکہ خاں ، جنرل یحییٰ خاں ، جنرل ملک اور خود ذوالفقار علی بھٹو سب نے مل کر پاکستان کو تباہ کردیا۔ بہاریوں کی آبادی ہزاروں کی تعداد میں صاف کردی گئی ۔ بھارت گنج ، کنگی کلیہ جیسے علاقوں میں عورتوں کی برہنہ پریڈ کرائی گئی اور انہیں قتل کردیا گیا ۔