پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے پر ترکی کی نظر

,

   

اسلام آباد۔ترکی او رپاکستان کے مابین دفاعی معاہدے ہونے کو جارہا ہے‘ جس سے اسلام آباد کے لئے میزائل اور جنگی جہاز بنانے میں شریک مینوفیکچرر بننے کے دروازے کھل جائیں گے۔

اس بات کا انکشاف بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں ہوا کہ دونوں مالک کے عہدیداروں نے پچھلے کچھ مہینوں میں ملاقاتیں کی ہیں جس میں فوجی ہارڈ ویئرکی تیاری او ر ترقی کے امکانات پر تبادلہ خیال کیاگیاہے۔

بلومبرگ کی رپورٹ میں دعوی کیاگیاہے کہ ”دونوں طرف کے اہلکاروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنوری میں ملاقاتیں ہوئی ہیں مگرآیا دونوں ممالک کے درمیان میں معاہدے تک رسائی ہوئی ہے اور اگلے میٹنگ کب ہوگی اس پر تبصرہ کرنے سے انکارکردیاہے“


جے ایف۔17تھنڈر جنگی جہاز
ترکی کا پاکستان کے دفاع اورملٹری سطح پر مینوفیکچرینگ کے طور پر شامل ہونا‘ استنبول کے لئے ایک راستے کھول دئے گا تاکہ چین کے اشتراک سے پاکستان کے تیار کردہ جے ایف17تھنڈر جنگی جہاز تک اس کی رسائی کرسکے۔

انے والے دنوں میں بھی ترکی پاکستان کے ساتھ دفاعی منصوبوں میں شریک ہونے کا اہل ہوجائے گا۔

ترکی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بلومبرگ کو بتایاکہ ”انقرہ دراصل اسلام آباد کو اپنے حکمت عملی دوست او راہم ساتھی کے طور پر طویل فاصلے تک وار کرنے والے اس کے دفاعی میزائل پراجکٹ اور ٹی ایف۔ایکس لڑاکو جہازوں کو فروغ دینے میں ساتھی کے طور پر دیکھتا ہے“۔

بلومبرگ نے جس ذرائع کا حوالہ دیاہے اس کا کہنا ہے کہ ”پاکستان کے ڈیفنس سکریٹری میاں محمد حلال حسین کی ترکی کے اعلی حکام بشمول وزیر دفاع حولوسی اکھر سے ڈسمبر میں ملاقات کی اور دفاعی صنعت میں تعاون پر تبادلہ خیال کیاہے“۔

پاکستان ماضی میں بھی ترکی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرچکا ہے اور دوست ممالک کے ساتھ بھی اس کے تعلقات بہتر ہیں اور مسلم دنیا میں اسلا م فوبیا جس کو کہتے ہیں اس کے خلاف جدوجہد پر توجہہ مرکوز کرتے ہوئے نمائندہ کے طور پر سامنے آنے کی کوشش کی ہے۔


او ائی سی کے سامنے محاذ آرائی کا چیالنج
تاہم پاکستان کی جابن سے ترکی او رملیشیاء سے دوستی کی پہل کو سعودی عربیہ کی جانب سے مسترد کیاگیاہے‘ جو مذکورہ اتحاد کو پہلے سے موجود آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن (او ائی سی)کے لئے محاذ آرائی کا چیالنج کے طور پر دیکھتا ہے۔

اب جبکہ پاکستان او ر ترکی کے درمیان میں دفاعی تعلقات کو توسیع مل رہی ہے تو جانکاری کا ماننا ہے کہ اس کا اثر پاکستان کے امریکہ کے مستقبل کے رشتوں پر پڑسکتا ہے۔