پاک ۔ افغان تعلقات میں مزید کشیدگی

   

افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی پاکستان کے نگران وزیرخارجہ جلیل عباس سے ملاقات

اسلام آباد: افغانوں کی ملک بدری کے سبب کشیدہ تعلقات کے درمیان افغانستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ افغان وزیر تجارت کی قیادت میں یہ وفد ایک سہ فریقی اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچا ہے۔یہ افغان وفد پاکستان، ازبکستان اور افغانستان پر مشتمل اقتصادی تنظیم (ای سی او) کے اجلاس میں شرکت کیلئے آیا ہے۔ تاہم اس دوران پاکستانی اعلیٰ حکام کے ساتھ دیگرامور پر بھی تبادلہ خیال کرے گا۔اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کی طرف سے سوشل میڈیا ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان وفد نے پیر کے روز اسلام آباد آمد کے چند گھنٹوں کے دوران پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی، جس میں دو طرفہ تعلقات پر گفتگو ہوئی۔خیال رہے کہ افغان شہریوں کو پاکستان سے انخلاء کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔حکومت پاکستان کے مطابق تقریباً چار ملین افراد میں سے لگ بھگ 1.7ملین افغان شہریوں کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ حکومت نے افغان شہریوں کے ملک سے انخلاء کا یہ حکم پاکستان میں خود کش بم دھماکوں کے بعد دیا تھا، جن کے بارے میں اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ ان میں افغان شہری ملوث تھے۔ کابل نے تاہم ان الزامات کی تردید کی ہے۔افغان سفارت خانے کے بیان کے مطابق افغانستان کے وفد کی قیادت وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی کررہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں افغان تاجروں کا کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے تجارتی سامان اور افغان پناہ گزینوں کی املاک کو منتقل کیے جانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغان وفد پاکستان کے ساتھ تجارت اور سفری معاملات پر بھی بات چیت کرے گا۔ ای سی او کا یہ سہ فریقی اجلاس تاشقند میں 16ویں ای سی او سربراہی اجلاس کے چند دن بعد ہو رہا ہے، جس میں پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے رکن ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ خطے میں غیر استعمال شدہ تجارتی صلاحیتوں سے استفادہ کریں۔پاکستان، افغانستان اور ازبکستان پر مشتمل اس اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کا قیام 1985میں عمل میں آیا تھا۔ اس بین الحکومتی تنظیم کا مقصد اس خطے میں ترقی، تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینا ہے۔اسلام آباد میں افغان وفد کی آمد پاکستانی حکومت کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر کنٹرول سخت کرنے کے اقدامات کا اعلان کرنے اور کئی اشیا پر فیس عائد کرنے کے اعلان کے چند ہفتے بعد ہوئی ہے، جس میں کپڑے اور ہر قسم کے ٹائر سمیت 210 سے زائد اشیاء کی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔پاکستانی حکام بغیر دستاویز کے پاکستان میں موجود غیر ملکیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تر افغان ہیں، جس سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوگئے ہیں اور دونوں اطراف سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان نے یہ کریک ڈاؤن یکم نومبر کی ڈیڈ لائن کے ختم ہونے کے بعد شروع کیا جو اس نے گزشتہ ماہ تمام غیر دستاویزی غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کیلئے دی تھی۔پاکستان کے نگران وزیر اعظم کاکڑ نے رواں ماہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پاکستان کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کیلئے اپنی سرزمین پر موجود سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بعض معاملات میں طالبان حکام کی ‘سہولت کاری‘ کے کچھ ثبوت بھی موجود ہیں۔