پروفیسر تروپتی راؤ کمیٹی رپورٹ پر ہنوز عمل ندارد

   


خانگی اسکولس کی فیس بدستور زیادہ

حیدرآباد ۔ اسکول فیس ریگولیشنس پر پروفیسر تروپتی راؤ کمیٹی کی جانب سے اس کی رپورٹ داخل کئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہورہا ہے لیکن اسکولس کو بے تحاشہ فیس چارج کرنے سے روکنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔ حکومت سے اس سلسلہ میں اولیائے طلباء نے کئی مرتبہ نمائندگی کی اور احتجاجی مظاہرے بھی کئے ۔ حتی کہ کورونا وباء کے دوران بھی اولیائے طلباء کو کوئی زیادہ راحت نہیں ملی ہے ۔ ایونٹ مینجمنٹ سے وابستہ نوین یادو نے کہا کہ ’’میرے بچے چھٹویں اور آٹھویں میں زیرتعلیم ہیں اور مجھے ہر ایک کے لئے ایک لاکھ روپئے سے زیادہ فیس ادا کرنا ہوتا ہے ۔ کورونا وباء کے باعث نو تا دس ماہ سے میری آمدنی رک گئی ہے اور میں فیس ادا نہیں کرسکا ۔ اسکول انتظامیہ سے درخواست کرنے کے باوجود انہوں نے کوئی رعایت نہیں دی ‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کے لئے کوئی ریگولیٹری باڈی ہوتی تو اولیائے طلبہ کو کچھ راحت ملتی تھی ۔ کے ونود کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ جس کی ملازمت ختم ہوگئی ہے اور وہ اس کے دو بچوں کی فیس ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ ونود نے کہا کہ ’’میرا بڑا بیٹا دسویں جماعت میں ہے ۔ 65 ہزار کے منجملہ میں 35 ہزار روپئے ادا کرپایا ہوں اور مجھے اس بات کی فکر ہے کہ اگر میں اس کی فیس ادا نہ کروں تو مینجمنٹ اس کا ہال ٹکٹ روک دے گا ‘‘ ۔ ونود نے اس کے چھوٹے بیٹے کی جملہ فیس 35000 روپئے میں صرف 15000 روپئے ہی ادا کئے ہیں ۔ 2018 ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر تروپتی راؤ کے زیرصدارت کمیٹی نے خانگی اسکولوں میں فیس ریگولیشن پر اس کی رپورٹ داخل کی تھی ۔ تاہم اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور اس کمیٹی کی سفارشات پر ہنوز عمل درآمد شروع نہیں کیا گیا ہے ۔ اولیائے طلباء کے چند مطالبات میں ڈسٹرکٹ فیس ریگولیٹری کمیٹیوں کو تشکیل اور تمام اسکولوںمیں پیرنٹ ٹیچرس اسوسی ایشن کا قیام شامل ہیں ۔ اس دوران اسکول مینجمنٹس نے کہا کہ انہیں ذمہ دار نہیں بنانا چاہئے کیونکہ اس وباء نے ہر ایک کو متاثر کیا ہے بشمول مینجمنٹس ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اسکول فیس ریگولیشنس بنائے تاکہ اگر کوئی ایک اسکول اس کی خلاف ورزی کرے تو ہر اسکول کو موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے ۔ تلنگانہ ریکگنائزڈ اسکولس مینجمنٹس اسوسی ایشن کے صدر شیکھر راؤ نے کہا کہ ’’اسکولس سے یہ کہنا کہ فیس وصول نہ کریں نامناسب ہے ۔ یہ ہمارے لئے آمدنی کا واحد ذریعہ ہے ۔ اگر ریاستی حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہم فیس وصول نہ کریں تو پھر اسے اقل تر رقم ادا کرنی چاہئیے جو ہر اسٹوڈنٹ کیلئے 20,000 روپئے ہو ۔ ‘‘