پروفیسر رحمت یوسف زئی کی فن ترجمہ نگاری!

   

رفیعہ نوشین
رحمت یوسف زئی کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے پہلے یہ خیال دل میں آ رہا ہے کہ ان کے بارے میں کچھ کہوں تو کہاں سے شروع کروں ؟ کیا کیا کہوں؟ کتنا کہوں ؟ کیوں کہ آپ کی شخصیت ہمہ جہت ہے! آپ 2003 میں یونیورسٹی آف حیدرآباد سے شعبہ اردو سے وظیفہ پرسبکدٖوش ہوئے ! آپ ان لوگوں میں شامل ہیں جو سن اٹھتر سے کمپیوٹنگ سے جڑے رہے۔ اردو اکیڈمی آندھرا پردیش کے تحت کئے جانے والے اردو کمیوٹر کورس کے بانی اور اعزازی ڈائرکٹر بھی رہے !مولانا آزاد قومی یونیورسٹی کے لئے اردو میں کمپیوٹر کورس کی تدوین کے علاوہ ریاست کی نصابی کتابوں کی ادارت بھی کرچکے ہیں !ریٹائر منٹ کے بعد انگریزی سے اردو بتوسط ’’ہندی مشینی ترجمے کے امکانات‘‘ پر بھی کام کر رہے ہیں !جس کی وجہ سے آپ کو آئی ٹی ماہر مانا جاتا ہے ! آپ 2010 سے تاحال ترجموں کے مشیر (consultant) کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے آ رہے ہیں چونکہ ترجمہ ایک علمی پیشہ ہے اور مترجم کو علمی قافلے کا ہم رکاب ہونا ضروری ہے آپ نے مختلف موضوعات پر منعقد ہونے والے سمینار،کانفرنسوں میں شرکت کی ہے اور لیکچرس بھی دئے ہیں- آپ کی شخصیت کے ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کسی ایک مضمون یا مقالہ کے ذریعہ کرنا گویا ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی ! کیونکہ یہ ایک بہترین پروفیسر،اچھے شاعر، مصنف ،مرتب مترجم اور IT کے ماہر بھی ہیں! نیز ان سب کے علاوہ جو خاص بات ہے وہ یہ کہ وہ ایک منکسرالمزاج، پیکراخلاق و اخلاص اور سادگی پسند ہیں- میں (مصنفہ) نے آپ کی شخصیت میں سے صرف آپ کے ایک پہلو کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے بحیثیت کامیا ب مترجم کے ! کیونکہ آپ کے منظوم تراجم پر حکومت پناما نے آپ کو روجے لیو سائنن ایوارڈ دیا ہے !

ترجمہ: کہنے کوتو محض پانچ حرفی لفظ ہے ! لیکن عملی طور پر یہ فن جوئے شیر لانے سے کم نہیں ! اس کے بارے میں خود یوسف زئی رقمطراز ہیں کہ تخلیق کار کے ساتھ سہولت یہ ہے کہ اس کے ہاں الفاظ خیال کے ساتھ ساتھ وارد ہوتے ہیں اور الہامی انداز میں شعر کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں ۔ اسے لفظوں کو تلاش نہیں کرنا پڑتابلکہ مناسب ترین الفاظ ہاتھ باندھے اس کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں ۔ مترجم کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اس کو شاعر کے تصورات سے ہم آہنگ ہو کر اسی کے استعمال کئے گئے الفاظ کے متبادل تلاش کرنے پڑتے ہیں ۔شکسی نے کہا تھا کہ ترجمہ صنف نازک کی طرح ہے جو اگر خوبصورت ہو تو وفادار نہیں ہو سکتی اور اگر وفادار ہو تو اس کا خوبصورت ہونا عموماّ ممکن نہیں ہوتا” ( اقتباس۔نغمہ آب۔ ص۔ ن۔11 ) لیکن اگر آپ یوسف زئی کا منظوم ترجمے پڑھیں گے تو یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ان کی مثال اس حسینہ کی سی ہے جو خوبصورت بھی ہے اور وفادار بھی۔
ترجمہ: وہ کھڑکی ہے جس کے ذریعہ دوسری زبانوں اور تہذیبوں سے متعارف ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ترجمے نے ایک قوم کے علمی ذخیرہ سے دوسری قوم کو روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے – یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دوسری زبانوں کی اعلیٰ تخلیقات کا ترجمہ بارہاقلم کاروں کو نئے ادبی میلانوں،تہذیبوں اور فنی معیاروں سے متعارف کراکر جدید احساسات و تجربات اپنانے پر آمادہ کرتا ہے۔
کسی دوسری زبان کے مقابلے میں اردو کی مثال زیادہ واضح ہے ۔اس کو ایک ترقی یافتہ زبان بنانے، قومی سطح پر مقبولیت بخشنے میں جہاں دوسرے عوامل کا دخل رہا ہے وہاں مختلف زبانوں سے مختلف علوم و فنون کے تراجم نے اس میں موثر رول ادا کیا ہے ۔ ان سے اردو زبان میں توانائی اور تازگی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔آج اردو زبان مختلف تہذیبوں کی خوش رنگینیوں سے اس لئے مالا مال ہے کہ اس میں ترجمہ کی روایت پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اردو کو ایک باقاعدہ زبان کے مقام پر فائز کرنے میں تراجم کا سب سے بڑا رول ہے ! اور اس رول کو ادا کرنے والے مترجم ہوتے ہیں جن کے بغیر اردو کو یہ مقام حاصل نہ ہوتا جو آج ہے ! اور ایسے ہی ایک مترجم ہیں پروفیسر رحمت یوسف زئی صاحب – جنہوں نے این گوپی کی 27 ابواب پر محیط طویل نظم ’’جل گیتم‘‘ کا منظوم ترجمہ کیا ہے ! این گوپی حیدرآباد کے نامورساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ یافتہ شاعر اورتلگو یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ! انہوں نے اپنی زندگی کے دس قیمتی سال نظم ’’جل گیتم‘‘ کی تخلیق میں صرف کردئے ، جس میں کاسمک پانی سے لے کر آلودہ پانی تک ایک عظیم آبی سفر کو اس نظم میں پیش کیا گیا ہے !
ڈاکٹر ظ انصاری شعرو شاعری کے ترجمے کو اس شاخ سے تعبیر کرتے ہیں جسے چھوتے ہی اہل علم کی انگلیاں جل جاتی ہیں ! اس کے باوجود رحمت یوسف زئی نے اس نظم کا ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا جو یہ جاننے پر مجبور کرتا ہے کہ:
آخر ایسا کیا ہے اس نظم میں جس نے پروفیسر رحمت یوسف زئی کو ترجمہ پر مجبور کیا تو پتہ چلتا ہے کہ ’’دور حاضر میں قابل استعمال پانی کے لئے ایک بحران ساپیدا ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے پانی کا صرفہ بڑھنے لگا ہے یہاں تک کہ اب قلت آب کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ! یہ ایک وجہ ہے اور دوسری وجہ ہے آلودگی۔ یہ کوئی سائنسی تحریر نہیں بلکہ سائنسی بنیادوں پر اگنے والی ایک فلسفیانہ اور Humanistic نظم ہے۔پانی کے موضوع پر اتنی طویل اور اس قدر موثر نظم دنیا کے کسی اور زبان میں نہیں لکھی گئی ۔ چنانچہ قارئین میں پانی کے بارے میں شعور بیدار کرنے اور این گوپی کو خراج پیش کرنے کی آرزو نے رحمت یوسف زئی کو اس نظم کے منظوم ترجمے کی طرف راغب کیا ! آپ نے اس کے پہلے باب کا ترجمہ کرکے شعر و حکمت میں شائع کروایا ۔ ناقدین نے جب اس کو سراہا تو آپ کی ہمت بندھی اور پھر آہستہ آہستہ یہ نظم اردو میں منتقل ہوتی رہی !
پروفیسر یوسف رحمت زئی ادبی ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ دقیق النظر بھی ہیں اور معانی کی گہرائی تک پہنچ کر پوری مہارت کے ساتھ ان معانی کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے کیونکہ ترجمہ کوئی حسابی عمل نہیں کہ دو جمع دو چار ہوتا ہے بلکہ ترجمہ نگاری انسانی عمل ہے جس میں عقل و ادراک،فکری صلاحیتوں اور احساس و شعور کو بیک وقت کام میں لانا ہوتا ہے ۔ پانی سمندر سے بھاپ بن کر بادل کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور پھر بارش کا روپ لے کر زمین کو سیراب کرتا ہے ۔ اس سائنسی عمل کو جسے واٹر سائیکل کہتے ہیں شاعر نے خوبصورت تشبیہ سے کس طرح پیش کیا ہے دیکھیں :
پیارے پیارے یہ بچے
جو جن میں سمندر کی ممتا بھری کوکھ سے
بدلیاں…
مینھ کو جنم دے کر کیا
آب خود کو فنا
اور ماں باپ کو
ہجر اولاد کا دکھ دیا !!
بدلیاں…
ترسیل وہ عمل ہے جس میں مترجم مصنف کی مجرد آگہی یا فن پارے کے اصل مفہوم کو قابل فہم علامتوں یعنی ترجمے کی زبان کے ذریعہ قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے ! یہ عمل زیادہ پیچیدہ اور دقت طلب ہے ! عام قارئین کو اس سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ اصل تصنیف میں کیاتھا ؟ یا اسکا انداز بیان کیاتھا ؟ وہ ترجمے کو ہی اصل کا نعم البدل کی حیثیت سے پڑھتے ہیں ۔ اس میں جو کچھ ہوتا ہے وہی ان کے لئے سب کچھ ہوتا ہے ۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے این گوپی کے فن پارے کو ایک نئی زبان میں قارئین کے سامنے پیش کر کے اپنی تخلیقی و فنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے ! مثال :
آب ائے آب !
تم نے دیا آنسؤں کو جنم
یہ بہت خوب ہے
آنسوؤں کی وضاحت کرو سائنس دانو ذرا
کتنے آئٹم ہیں اور
کس تناسب میں ہیں…؟
ان میں پروٹون الکٹرون ہیں کون سے کہو…؟
کون سی ہے تپش جس سے پیدا ہوئے ہیں
یہ نادیدہ بادل کہو
یہ برستے کہاں…
ترجمہ کے دوران مترجم نے اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ اصل مفہوم کے ساتھ ‘لطف بیان’ بھی باقی رہے- اور ایسا اسلوب اختیار کیا ہے جو اجنبی محسوس نہیں ہوتا…مثال :
ہاں
اگرچہ بڑی دلنشیں برف ہے…
راگ خاموشیوں کا ہے بکھرا ہوا دور تک
دل کے تاروں کو جو چھیڑ دے…
ہاں مگر
برف ہوتی ہے برہم کبھی
برف گرجے تو پھر اس زمیں کے پرخچے اڑیں
برف گرجے تو سارا توازن بکھرنے لگے:
ہے اسی وجہ سے یہ دعا
شانت رہ برف دیوی زرا…
شانت رہ ماں زرا…
ماں تو سوجا…
کہ تو عالم خواب میں کچھ زیادہ ہی سندر لگے !!!
مترجم کا اصل تصنیف کی زبان اس کا ادب اور اسکی قومی تہزیب سے نہ صرف واقفیت بلکہ دلچسپی اور ہمدردی ہونا چاہئے- اس لئے کہ مترجم دو زبانوں اور دوقوموں کے درمیان ‘لسانی اور ثقافتی سفیر’ کی حیثیت رکھتا ہے!
پروفیسر رحمت یوسف زئی نہ صرف دونوں زبانوں کی تہذیب و ثقافت سے آشنا ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دونوں زبانوں کی ڈپلومیسی سے بھی واقف ہیں ۔ یعنی اصل اور مطلوبہ زبان کے تہذیبی،لغوی اور سماجی فروق اور باریکیوں سے واقف ہیں اور ان تمام امور کو ترجمہ میں کس طرح ملحوظ رکھا ہے ملاحظہ کریں ؟
ساری تہذیب ندیوں کے ساحل پہ پھولی پھلی…
والمیکی نے سریوندی کے ہی کنویس پر
رامائن…
اک عظمتوں سے بھرے رزمیہ کو مصور کیا…
نقش جس کے نہ دھندلا سکیں گے کبھی :
کالی داس…
اس نے اٹھکیلیاں کرتے بادل سمیٹے
انہیں نظم کی شکل دی…
میگھدوت
ایک پیغامبر بادلوں کا
جو ندیوں کے آنچل کو اوڑھے ہوئے
کوہساروں پہ ڈالے نظر تو اس کا دل مچل جائے ہے :
رحمت یوسف زئی نے اس ترجمے میں سشخصی تاثر کو ترجمہ پر بالکل بھی اثر انداز ہونے نہ دیا بلکہ جس قدر ممکن ہو سکے اپنی جانب سے مولف کے موقف اور اس کے پیغام میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرتے ہوئے من وعن مولف کے پانی کے آلودگی کے پیغام کو مطلوبہ زبان میں رواں،شستہ،قابل فہم پیرایہ میں کس طرح منتقل کیا ہے غور کریں ؟
آلودگی !
یہ صدی کیا ہے…؟
آلودگی کی صدی…؟
صارفیت کا سیلاب برھتا ہوا
ہے اس آلودگی کابس اک سنگ میل…!
اور یہ پتھر
ہے اعلان کس بات کا ؟
یہ علامت ہے کیسی ترقی کی
پانی کی بدبو سے آلودہ کرتی ترقی کی :
بہتے ہوئے صاف و شفاف انمول پانی کی دنیا کو
اک کھردرا موٹاملبوس پہنانے والی ترقی کی:
کیسی ترقی ہے یہ !
کامیاب ترجمہ نگاری بہت بڑا علمی و فکری چیالنج ہے – لیکن یوسف رحمت زئی نے اس چیالنج کو قبول کرتے ہوئے اس نظم کے ترجمے میں شاعر کی روح کو منتقل کر دیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اصل کی روح ترجمہ میں اس طرح سما گئی ہے کہ ترجمہ خود تخلیق کار کا درجہ حاصل کر چکا ہے !