پرینکا گاندھی کا روڈ شو

   

نفرتوں کے درمیاں میرا وجود
جیسے اِک جگنو اندھیری رات میں
پرینکا گاندھی کا روڈ شو
پرینکا گاندھی کی سرگرم سیاست کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے، ان کی آمد اور یو پی میں روڈ شوز نے گلیوں گلیوں میں شور برپا کردیا ، لوگ خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ یو پی کے عوام کے سامنے اب تک کتنی ہی صورتیں دُھندلا گئی ہیں اور پھر کھوگئی ہیں لیکن پرینکا گاندھی کا چہرہ اس ریاست میںکانگریس کی ساکھ کو مضبوط بنانے کا کام کرے گا۔ کانگریس کی پرچھائیاں ریاست میں برسوں سے قید تھیں، پارٹی کے احیاء ہونے کی بات کرنے سے بھی لوگ گریز کرتے تھے کیونکہ ان کے دلوں کے اندر پارٹی کی یاد کا ایک آسیب سارہا کرتا تھا،اب یہ آسیب دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ پرینکا کی آمد کے بعد نہ صرف یو پی بلکہ ملک کی ہر ریاست میں کانگریس کے احیاء کی بھولی بسری رونقیں ہرطرف جھلکتی نظر آرہی ہیں ۔ مودی حکومت کے دوران ریاست گجرات ہو یا دیگر کوئی ریاست اُجڑے گھروں کے درمیان آبادیاں نام کو دیکھی جاتی رہی ہیں۔ پانچ سال کی مودی حکومت نے بی جے پی کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے، اب اس پارٹی کے اندر دیمک کے قافلے اُتر چکے ہیں ۔ قومی سطح سے لیکر علاقائی سطح پر نریندر مودی کی مقبولیت کے گرتے گراف کو نوٹ کیا جارہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں عالمی سطح کے سرمایہ دار اور ہندوستان کی مارکٹوں کی جانکاری رکھنے والوں نے یہ قیاس آرائیاں شروع کردی ہیں کہ ہندوستان میں سیاسی تبدیلی ہونے لگی، مودی حکومت میں ایف ڈی آئی کا فلو کم ہوگیا تھا، جمہوریت کو سڑک پر لاکھڑا کردیا گیا اور دستوری اداروں کی پامالی کا مشاہدہ ہر کوئی کررہا ہے۔ ایک ایسے وقت دنیا کے کئی علاقوں میں جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جارہی ہے وہیں ہندوستان کی جمہوریت پر متعصبانہ، فرقہ وارانہ اور ہندوتوا کے خطرہ کو مسلط کرکے تباہ کرنے کی سازش روبہ عمل لائی جارہی ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے اپنی بہن کو درست موقع پر سرگرم سیاست میں قدم رکھنے کا مشورہ دے کر ان کی آمد کو یقینی بنایا۔ کل تک صرف اندازے قائم کئے جارہے تھے کہ پرینکا کو اب کانگریس کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی، پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے پرینکا کا ہونا ضروری ہے وغیرہ چہ جائیکہ راہول گاندھی کی قیادت میں پارٹی نے 3 ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی 15 سالہ حکمرانی کو چھین لیا تو کانگریس میں نئی جان پڑگئی ۔ اب پرینکا گاندھی کے سرگرم ہوجانے سے پارٹی کیڈرس کے اندر نیا جوش و خروش پیدا ہوا۔ لیکن تاخیر سے کانگریس کی سیاسی سرگرمیاں سنبھالنے کی وجہ سے پارٹی کو آنے والے لوک سبھا انتخابات میں کامیاب بنانے میں وہ کامیاب ہوسکیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ یو پی میں ہی اگر پرینکا گاندھی نے پارٹی کو مضبوط بنالیا تو ان کی آمد کو فال نیک سمجھا جائے گا۔ ورنہ پارٹی کے لئے اس سے بُرا کچھ نہیں ہوگا کہ اہم چہرہ کی موجودگی کے باوجود کانگریس نے خاص تیر نہیں مارا۔ اس میں شک نہیں کہ جس طرح 2014 میں نریندر مودی کی مقبولیت دیکھی جارہی تھی اس سال 2019 میں پرینکا گاندھی ، راہول گاندھی نے عوام کے دلوں کو اپنی جانب راغب کرلیا ہے۔ 2014 میں جس سوشیل میڈیا نے مودی کو اقتدار سونپا تھا یہی سوشیل میڈیا ان کے زوال کا سبب بنے گا کیونکہ سوشیل میڈیاپر مودی حکومت کی کارکردگی بتانے لائق کوئی کام ہی نہیں ہے اس لئے عوام اس حکومت کی تعریف سماعت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ یو پی میں پرینکا کو عوام کا حوصلہ افزاء ردعمل حاصل ہوا ہے ۔ یو پی کا ووٹر خوش ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کانگریس کی جیت یقینی ہوگی بلکہ کانگریس کے لئے مزید ذمہ داری بڑھ جائے گی کہ وہ یو پی کے عوام کو ان کی توقعات کے مطابق اپنی سرویس فراہم کرے، ورنہ عوام کو احساس ہوگا کہ بے سبب وہ کانگریس میں بہتری آنے کے لمحہ کا انتظار کرتے رہے۔ یو پی کے مسلمانوں کے لئے بھی کانگریس کی آمد کا انتظار بہتر نتائج برآمد کرنے کی اُمید کی جاسکتی ہے کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے نہ صرف یو پی بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ایک مسمار مسجد کے پیچھے چل رہی ناپاک سیاست کو قوی ہوتا دیکھا گیا ہے۔ ان کی نیندوں پر نفرت پھیلانے والے لوگوں کے سائے منڈلاتے رہے ہیں۔ بہر حال پرینکا گاندھی کے پہلے روڈ شو نے یہ ظاہر کیا ہے کہ کانگریس کو آگے بڑھنے میں تیزی سے کامیابی ملے گی۔