پوٹن کی طئے شدہ جیت

   

غم حیات نے پہنچا دیا کہاں سے کہاں
وطن میں اپنے ہی رہتا ہوں اجنبی کی طرح
روس میںانتخابی نتائج کا اعلان ہوچکا ہے ۔ نتیجہ وہی ہے جو ساری دنیا جانتی تھی ۔ یہ نتیجہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت سے طئے تھا جس وقت سے انتخابات کا اعلان ہوا تھا ۔ روس میں 15 تا 17 مارچ انتخابی عمل کا انعقاد عمل میںآیا ۔ اسے انتخابی عمل تو کہا جا رہا ہے اور اس کے نتائج کا بھی اعلان کردیا گیا ہے تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ روس کے الیکشن کمیشن نے ایک طئے شدہ پروگرام کو پایہ تکمیل کو پہونچانے کا کام کیا ہے ۔ روس میںانتخابات گذشتہ تقریبا دو دہوں سے اسی طرز پر منعقد کئے جا رہے ہیں جہاںولادیمیر پوٹن ایک بے تاج بادشاہ کے طور پر ابھرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ انتخابات کو کچھ اس ڈھنگ سے منعقد کیا جاتا ہے کہ پوٹن کے سامنے کوئی مخالف امیدوار ہی نہ رہنے پائے ۔ حالانکہ انتخابی مقابلہ دکھایا جاتا ہے لیکن صدر پوٹن کے مخالف امیدوار بھی شائد وہی ہوتے ہیں جنہیںخود پوٹن منتخب کرتے ہیں۔ ولادیمیر پوٹن کو اپنے اقتدار میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے ۔ کچھ مواقع پر بورس نیمتسو اور الیکسی نوالنی نے پوٹن کی حقیقی معنوں میں مخالفت کی تھی اور عوام کے درمیان پہونچ کر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا تھا تاہم ان دونوں ہی آوازوں کو خاموش کردیا گیا ۔ دونوں ہی خاموش کردئے گئے ہیں۔ الیکسی نوالنی گذشتہ دنوں ہی ایک جیل میں اچانک ہی فوت ہوگئے ۔ پوٹن کی مخالفت کرنے والے کئی قائدین ایسے ہیں جوا ب بھی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے ساتھ کیا کچھ سلوک کیا جا رہا ہے کسی کو پتہ نہیں ہے ۔ ان تک کسی کو رسائی بھی نہیں دی جاتی ۔ اس بار بھی جو انتخابات ہوئے ہیں ان میںپوٹن نے جو ووٹ ڈالے گئے تھے ان میں 88.22 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے ۔ یہ حقیقی انتخابی نتیجہ میں ایک بڑی کامیابی کہی جاسکتی ہے تاہم پوٹن کے معاملے میں ایسا کہنا شائد درست نہیں ہوگا ۔ روس میں جس طرح کی سیاسی صورتحال ہے اس کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی دعوی کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے بلکہ ایک طئے شدہ پروگرام کو مرحلہ وار انداز میں پایہ تکمیل کو پہونچا دیا گیا ہے جس میں پوٹن کی بالادستی ثابت ہوگئی ہے ۔
ولادیمیر پوٹن روس پر ایک طرح سے گذشتہ ربع صدی سے اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ صدر رہے ۔ کبھی وزیر اعظم رہے اور پھر صدر بن گئے ہیں۔ انتخابات سے قبل یوکرین کی جنگ پر تنقید کو جرم قرار دے دیا گیا تھا ۔ اس کامیابی کے ذریعہ ولادیمیر پوٹن نے مغربی دنیا کو یہ تاثر ضرور دیا ہے کہ سارا روس ان کے ساتھ ہے ۔ ان کی جانب سے یوکرین پر جنگ مسلط کئے جانے کے باوجود روس اور روس کے عوام متحد ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بھلے ہی پوٹن کو یوکرین جنگ کی وجہ سے تنقیدوں کا نشانہ بنا رہے ہوں اور ان کے خلاف پابندیاں اور تحدیدات بھی عائد کی جا رہی ہیں لیکن اس کا خود پوٹن یا روس پر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ عالمی برداری کو پوٹن اپنے انتخابی نتیجہ کے ذریعہ یہ پیام دینا چاہتے تھے کہ سارا روس جنگ میں بھی ان کے ساتھ ہے ۔ وہ یہ پیام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ تاہم یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ جب کوئی مقابلہ ہی نہ رہے تو پھر جیت کے معنی کیا رہ جاتے ہیں ؟ ۔ روس میں نہ سیاسی مخالفت کو برداشت کیا جا رہا ہے اور نہ ہی کسی کو حکومت یا خاص طور پر صدر پوٹن کو تنقید کا نشانہ بنانے کا اختیار رہ گیا ہے ۔ روس کا میڈیا بھی ایک طرح سے ’ گودی میڈیا ‘ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ وہ بھی کنٹرول میں کام کرتا ہے ۔ حکومت کے اشاروں اور ہدایات کو نظر انداز کرنے کی روسی میڈیا کو بھی اجازت نہیں ہے ۔ ایسے میں انتخابات کا انعقاد کرتے ہوئے کامیابی درج کروالینا ایک طئے شدہ پروگرام ہی کہا جاسکتا ہے ۔
اب جبکہ پوٹن دنیا دکھاوے کیلئے انتخابات کے ذریعہ کامیاب ہوگئے ہیں اور روس پر ان کا تسلط ایک طرح سے 2030 تک کیلئے وسعت پا گیا ہے تو انہیںاپنے طرز عمل اور روس کے حالات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ایک دبے کچلے معاشرہ پر حکومت کرنے کی بجائے کھلے ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ روس کے عوام کو بھی اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع ملنا چاہئے ۔ سیاسی مخالفت کو قبول کیا جانا چاہئے ۔ نظریات کا احترام ہونا چاہئے اور میڈیا کو اس کی آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے ۔ روس کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ان تمام باتوں کی امید کرنا فی الحال فضول ہی نظر آتا ہے ۔