پھر اپوزیشن اتحاد کی باتیں

   

کھمم میں بھارت راشٹرا سمیتی کے جلسہ عام کے بعد ایک بار پھر کچھ گوشوں کی جانب سے ملک میں اپوزیشن اتحاد کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ حالانکہ یہ باتیں نئی نہیں ہیں لیکن وقفہ وقفہ سے ان کو دہرانے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ حالانکہ درمیان میں جو وقفہ آتا ہے اس میں سبھی جماعتیں خاموش دکھائی دیتی ہیں اورا پنے اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں لیکن جہاں تک اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کی بات ہے تو یہ کوششیں یا باتیں محض وقتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں ایک دوسرے کے تعلق سے جو دوریاں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ جماعتیں واقعی کسی اتحاد کی وکالت کرتی ہیں۔ ویسے تو چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کے کھمم جلسہ عام میں عام آدمی پارٹی ‘ سماجوادی پارٹی اور سی پی آئی کے قائدین نے شرکت کی ہے لیکن کئی جماعتیں ملک میں اب بھی ایسی ہیں جو اس جلسہ میں شامل نہیں ہوئی ہیں۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار بھی چاہتے ہیں کہ قومی سطح پر بی جے پی کے خلاف کوئی سیاسی اتحاد قائم ہوجائے ۔ ہر جماعت اس تعلق سے یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ اپوزیشن اتحاد کی حامی ہے لیکن وہ اپنے تحفظات کو ختم کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی ۔ جہاں تک کے سی آر کی بات ہے تو ان کا دعوی ہے کہ وہ بی جے پی کے خلاف محاذ بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے عزائم اور منصوبوں سے دوسری جماعتیں متفق نظر نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخالف بی جے پی اتحاد کیلئے کے سی آر کی کوششوں کا آغاز ترنمول کانگریس سربراہ ممتابنرجی سے ملاقات کے ذریعہ ہوا تھا ۔ ممتابنرجی ابھی کے سی آر سے اپنی دوریاں بنائے ہوئے ہیں۔ کے سی آر چاہتے ہیں کہ بی جے پی کے خلاف محاذ میں کانگریس کو کسی قیمت پر شامل نہ کیا جائے ۔ کئی علاقائی جماعتیں اب بھی ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ کانگریس کے بغیر مخالف بی جے پی اتحاد ادھورا ہی رہے گا اور بی جے پی کو شکست دینے کے خواب کو پورا کرنے کیلئے کانگریس کے ساتھ مل کر اتحاد بنانا ضروری ہوگا ۔ ممتابنرجی بھی پہلے کانگریس کی مخالفت کرتی رہی ہیں لیکن اب وہ کے سی آر سے بھی دوری بنائے ہوئے ہیں ۔
چیف منسٹر بنگال کے موقف سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی مخالف بی جے پی اتحاد میں کانگریس کو شامل کرنا چاہتی ہیں۔ کے سی آر کمیونسٹ جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں جبکہ کمیونسٹوں کو ساتھ لینے پر ممتابنرجی تحفظات کا شکار ہیں۔ ایسے میں ان دونوں میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں این سی پی کے سربراہ شرد پوار ایک تجربہ کار اور سینئر سیاستدان ہیں۔ ان کا بھی یہی موقف ہے کہ کسی بھی اپوزیشن اتحاد میں کانگریس کی شمولیت ضروری ہوگی ۔ ان کی پارٹی کا مہاراشٹرا میں کانگریس اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے سے اتحاد ہے ۔ وہ اس اتحاد کو ترک کرتے ہوئے کسی اور کے ساتھ جانے کیلئے رضامند نظر نہیں آتے ۔ چیف منسٹر بہارن تیش کمار کا بھی موقف لگ بھگ ایسا ہی ہے ۔ نتیش کمار بھی بہار میں کانگریس اور آر جے ڈی سے اتحاد رکھتے ہیں۔ ان کی حکومت کو کانگریس کی تائید حاصل ہے ۔ آر جے ڈی بھی کانگریس سے اتحاد کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتی ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن اتحاد کے دعویداروں کی صفوں میں ایک رائے دکھائی نہیں دیتی ۔ سماجوادی پارٹی کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ کانگریس کو کسی بھی اتحاد میں شامل کرنے تیار نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکھیلیش سنگھ یادو نے کے سی آر کے جلسہ میں شرکت بھی کی ہے اور وہ کے سی آر کے منصوبوں سے اتفاق بھی کرتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی ضرور کے سی آر کے ساتھ ہے لیکن اس کے تعلق سے بھی شکوک عوام کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں ۔ وہ بھی در پردہ بی جے پی کی معاون نظر آتی ہے ۔
عام آدمی پارٹی نے جس طرح سے گجرات میں بی جے پی کو ایک بڑی کامیابی دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے اس کے بعد اس کے تعلق سے رائے عامہ میں تبدیلی آئی ہے ۔ وہ ملک میں خود کو واحد بہتر جماعت سمجھتی ہے ۔ کئی اور علاقائی اور دوسری جماعتیں ایسی ہیں جو کانگریس کے ساتھ کی حمایت کرتی ہیں تو بے شمار جماعتیں ایسی ہیں جو کانگریس کی مخالفت بھی کرتی ہیں۔ اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں کیلئے سبھی کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا آسان نظر نہیں آتا ۔ جب تک تمام جماعتیں حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے موقف میں لچک پیدا نہیں کرینگی اس وقت تک اپوزیشن اتحاد ایک ادھورا خواب ہی بن کر رہ جائیگا ۔