پہلو خان کو کس نے مارا ؟

   

وہی قاتل وہی مخبر وہی منصف ٹھہرے
اقرباء میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر
پہلو خان کو کس نے مارا ؟
راجستھان کے الور ضلع میں ایک مسلم شخص پہلو خان کا قتل کردیا گیا اور اس مقدمہ کے تمام ملزمین کو عدالت سے برات مل گئی ہے ۔ پہلو خان کا قتل سارے ہندوستان میں چرچا کا موضوع بن گیا تھا ۔ یہ ہجومی تشدد کی بد ترین مثال تھی ۔اس سے پہلے بھی ہجومی تشددکے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن پہلو خان کے قتل کے بعد اس طرح کے واقعات میںاضافہ ہوگیا تھا ۔ پہلو خان کے قتل کے واقعہ پر سارے ملک میں مذمت بھی کی گئی تھی اور شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا تھا ۔ ہجومی تشدد کے واقعات کے خلاف سارے ملک میں مدبر اور معتبر گوشوں کی جانب سے ملک بھر میں پرامن احتجاج بھی ہوا تھا تاہم ایسا لگتا ہے کہ قتل کے واقعات ہوتے رہیں گے اور خاطیوں کو کسی طرح کی سزا بھی نہیں ملے گی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلو خان قتل مقدمہ میں تمام چھ ملزمین کو عدالت سے براء ت مل گئی ہے ۔ یہ عدالتی فیصلے کی بات نہیں بلکہ یہ استغاثہ کی ناکامی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ استغاثہ میں بھی خاطیوں اور فرقہ پرست جنونیوں کو بچانے والے عناصر موجود ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب مسلمانوں کا قتل ہوتا ہے اور انہیںنشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسا کرنے والوں کو سزائیں دلانے سے زیادہ انہیں بچانے پر توجہ دی جاتی ہے اور پہلو خان قتل مقدمہ اس کی ایک اور مثال ہے ۔ ہم نے کئی واقعات میںدیکھا ہے کہ ملزمین کو عدالتوں سے برات مل گئی اور استغاثہ ان کا جرم ثابت کرنے میں اور ثبوت و شواہد پیش کرنے میںناکام رہا ہے ۔ اسے استغاثہ کی ناکامی سے زیادہ عمدا کی گئی لاپرواہی یا تغافل کہا جاسکتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک شخص کا قتل ہوجاتا ہے ۔ اس کا ویڈیو منظر عام پر آتا ہے ۔ سارے ملک میںاس کی مذمت کی جاتی ہے کئی گوشوں سے احتجاج بھی کیا جاتا ہے تاہم اس کے ملزمین کو سزائیںدلانے میںاستغاثہ ناکام ہوجاتا ہے ۔ یہ شائد پہلا موقع نہیں ہے جب کسی قتل کے ملزمین کو عدالتوں سے براء ت ملی ہو۔ اس سے پہلے بھی اکثر ہم نے مسلم متاثرین کے مقدمات میں دیکھا ہے کہ استغاثہ ملزمین کے خلاف جرم کو عدالتوں میں ثابت کرنے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے ۔
یہ حقیقت ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایک شخص کو محض شبہ کی بنیاد پر اور فرقہ پرستی کے جنون میں ہذیان کی کیفیت کا شکار ہوکر قتل کردیا گیا ۔ اس کے ملزمین کون ہیں یہ ہماری پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں ڈھونڈ نہیںپا رہی ہیں اورجن ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا ان کے خلاف جرم ثابت نہیںکر پا رہی ہیں۔ اب اگر جو ملزمین بری ہوئے ہیں وہ واقعی اگر بے قصور ہیں اور انہوں نے پہلو خان کا قتل نہیں کیا ہے تو پھر پہلو خان کے قاتل ہیں کون ؟ ۔ پہلو خان تو قتل ہوگیا ۔ اس کے قاتل بھی کوئی نہ کوئی ہونے چاہئیں ۔ جب کوئی قتل ہوا ہے اور کوئی قاتل ہے بھی تو پھر انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکتا ؟ ۔ جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے اگر وہ مجرم نہیں ہیں تو پھر مجرم ہے کون ؟ ۔ کس نے پہلو خان کو قتل کیا تھا ؟ ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب نہ صرف راجستھان کی پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں اور سرکاری وکلا کو دینے کی ضرورت ہے بلکہ راجستھان کی حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خاطیوں کو قرار واقعی سزا دلانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھے ۔ انصاف کے تقاضوں کی اس طرح سے دھجیاں بکھیر دینا قانون سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہوگا ۔ خاطیوںکو اگر سزائیں دلانے میں تحقیقاتی ایجنسیاں اور استغاثہ اگر یونہی ناکام ہوتا رہا تو پھر مزید غیر سماجی عناصر کے حوصلے بلند ہوتے رہیں گے ۔
راجستھان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف عدالت العالیہ میں اپیل کی جائے گی ۔ یہ اپیل ضرور کی جانی چاہئے تاہم یہ محض ضابطہ کی تکمیل نہیںہونی چاہئے ۔ حقیقی معنوں میں خاطیوںکو سزا دلانے کے مقصد سے یہ اپیل ہونی چاہئے اور استغاثہ اور پولیس کو یہ ذمہ داری دی جانی چاہئے کہ وہ خاطیوں کو سزا دلائیں۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت پر بھی سوال پیدا ہونے لگا ہے ۔ حکومت تحقیقاتی عہدیداروں اور استغاثہ کو جواب دہ بنائے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ اندیشے ضرور لاحق رہیں گے کہ اعلی عدالت میں بھی استغاثہ لاپرواہی سے اور مبینہ جانبداری سے کام لیتے ہوئے خاطیوں کو سزا دلانے کی بجائے انہیں مدد کرنے میںہی مصروف رہیگا ۔ اگر پہلو خان کے قاتل آزاد ہی گھومتے رہیں اور انہیںکوئی سزا نہیںدی جاتی ہے تو پھر اس طرح کے مزید واقعات بھی پیش آسکتے ہیں۔