پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی، عالم اسلام کی برہمی

   

ہندوستان کا شدید نقصان

عامر علی خان
نیوز ایڈیٹر سیاست
ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں 2014 ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے ’’اچھے دن کا نعرہ لگایا اور عوام کواچھے دن کے خواب دکھائے۔ با الفاظ دیگر ہتھیلی میں جنت دکھائی اور پھر اقتدار بھی حاصل کرلیا ۔ اب تو مودی حکومت کے 8 سال مکمل بھی ہوچکے ہیں ۔ بی جے پی قائدین سے لیکر بھکتوں کا دعویٰ ہے کہ ان آٹھ برسوں میں ہندوستان نے زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی (جہاں تک بھکتوں کا سوال ہے ، ان بیچاروں کو خود اپنی ترقی و خوشحالی کا خیال نہیں) اب سارے ملک نے دیکھ لیا کہ ہندوستان نے کتنی ترقی کی ہے ؟ عالمی سطح پر ہمارا کیا مقام ہے ؟ عالمی برادری میں ہماری کیا شبیہہ بن گئی ہے ؟ ہم کیوں موضوع مذاق بن گئے ہیں؟ آخر خوشگوار دوستانہ تعلقات رکھنے والے عرب ملک ہندوستان سے ناراض اور حکومت ہند پر برہم کیوں ہیں ؟ آخر کیوں ہماری حکومت کو ہمارے مشیر قومی سلامتی کو بار بار وضاحت کرنی پڑ رہی ہے ؟ آخر اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسی عالمی تنظیمیں ہندوستان کے حالات مرکز اور ریاستی حکومتوں کے اقدامات ، نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی لاپرواہی و جانبداری پر تشویش کا اظہار کیوں کر رہی ہیں؟ امریکی حکومت بار بار ہماری حکومت کو تنقید کا نشانہ کیوں بنارہی ہے ، حد تو یہ ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کی موجودگی میں امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ ہندوستان میں حقوق انسانی کی پامالی اور اقلیتوں پر مظالم پر اظہار تشویش کرتے ہوئے ایک طرح سے انتباہ دے رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی شبیہہ آخر عالمی سطح پر کس نے متاثر کی ؟ کیا اس کیلئے ہمارا سب سے بڑا دشمن چین ذمہ دار ہے ؟ یا کٹر حر یف پاکستان کو اس کیلئے مورد الزام ٹہرایا جاسکتا ہے ؟ یا پھر کوئی عالمی سازش کا نتیجہ ہے کہ ملک میں نفرت کی ایک لہر پائی جاتی ہے ۔ اسی لہر جس کے ذریعہ بے شمار بے قصور ہندوستانی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے ، سینکڑوں نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا ، ایسے ہزاروں نوجوان آج بھی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں، نفرت کی اس لہر کا نشانہ درجنوں عبادتگاہوں کو بھی بنایا گیا ہے ۔ فرقہ پرستی کی اس آلودگی سے تعلیمی نصاب اور تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے۔ نفرت کی اس لہر کی زد میں آکر کثیر تعداد میں ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی مجروح ہوئے ۔ ان کے زخم اتنے گہرے ہیں کہ انسانیت کا مرہم بھی نہیں ملتا ۔ ہاں کچھ ملتا ہے تو فرقہ پرستی و درندگی کا زہر ملتا ہے جو ملک کے کونے کونے میں دستیاب ہے ۔ خاص طور پر نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ زہر دل کھول کر بھردیا گیا ہے ۔ انہیں بتایا گیا کہ اس ملک پر صرف ہمارا حق ہے، صرف ایک مذہب کے پیروکار ہی یہاں رہنے کے مستحق ہیں۔ اس تباہی و بربادی کیلئے آخر کون ذمہ دار ہے؟ آخر کس کی وجہ سے ہندوستان کی یہ حالت ہوگئی ہے ۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو ملک کے موجودہ حالات کیلئے وہ شرپسند ذمہ دار ہیں جنہیں مذہب کی افیون دے دے کر ان کے زبان و قلوب سے انسانیت کے جذبات و احساسات کو نچوڑ کر نکال دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر معاملہ میں ہندو ، مسلم ، مندر ، مسجد کرنے لگتے ہیں۔ انہیں اس قدر بے حس کردیا گیا کہ وہ اچھے برے نیکی بدی ، ثواب و گناہ انسانیت و حیوانیت اور سچائی دروغ گوئی میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ہاں موجودہ حالات کیلئے نہ صرف شرپسند ذمہ دار ہیں بلکہ انہیں اکسانے والے ان کے آقا بھی پوری طرح ذمہ دار ہیں، چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز کیوں نہ ہوں، موجودہ حالات کیلئے حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں، چاہے وہ مرکز ہو یا ریاستی حکومتیں اگر وہ چاہتی تو ملک میں حقیقت میں رام راجیہ ہوتا ۔ کسی پر ظلم و جبر نہیں ہوتا ، کسی کا قتل نہیں ہوتا ، کسی بیٹی کی عصمت ریزی نہیں ہوتی ، کسی کی عزت کو تار تار نہیں کیا جاتا ۔ کسی کا دامن داغدار نہیں ہوتا ۔ ملک کے موجودہ حالات کیلئے جہاں شرپسند فرقہ پرست ، ان کے آقائیں ، حکومتیں ذمہ دار ہیں، وہیں نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کرسکتی لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا ہوا ہے جس کا نتیجہ تباہی و بربادی کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ این ڈی ٹی وی کے روش کمار نے بہت خوب کہا ہے کہ جب میڈیا ، سیاسی جماعت اور حکومت کا شراکت دار بن جاتا ہے تو عام شہریوں کو قاتل بنانا شروع کردیتا ہے ۔ راقم اپنے الفاظ کے ذریعہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ آپ ضرور سمجھ رہے ہوں گے ۔ ملک کے موجودہ حالات کیلئے میڈیا بھی ذمہ دار ہے جسے گودی میڈیا کہا جاتا ہے ۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے گودی میڈیا کے چیانلوں میں بیٹھے امن دشمن (انہیںتو ملک دشمن کہا جائے تو درست ہوگا) اینکرس نے میرے خیال میں 8 سال یعنی 97.33 مہینوں 2920 دنوں ، 69120 گھنٹوں میں 98 فیصد وقت صرف اور صرف مذہبی منافرت پر مبنی مباحثے پروگرامس اور خبریں پھیلانے کا کام کیا ۔ ملک کی بھلائی صحت، تعلیم و بنیادی سہولتوں کو بہتر بنانے کے پروگرامس کی بجائے ’’گودی میڈیا روز فرقہ پرستی کی چیخیں مارتا رہا ، ایسے میں ملک کے موجودہ حالات اور عالمی سطح پر شرمساری کیلئے گودی میڈیا بھی برابر کا ذمہ دار ہے جس طرح اب نفرت پھیلانے والوں کے خلاف دہلی پولیس ایف آئی آر درج کرنے کی حیرت انگیز طور پر جرأت کی ہے ، اسی طرح گودی میڈیا کے ان تمام چیانلوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئے جنہوں نے 8 برسوں سے محب وطن ہندوستانیوں کا جینا دوبھر کردیا تھا ، انہیں تو بس اقتدار کے مزے لوٹ رہے اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے اور اپنی حرام کی دولت میں اضافہ کی بھی فکر لاحق تھی ۔ اب جبکہ ہر لحاظ سے ملک کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے ، عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔ ہمارے دوست عرب ممالک ہم سے معذرت خواہی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا بڑا عجیب لگتا ہے اور ہر ذی شعور ہندوستان کے ذہن میں یہ سوال ضرور گردش کرتا ہے کہ حکومت اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں نے اس وقت ہی کارروائی کیوں نہیں کی جب فرقہ پرست درندے اپنا سر ابھارنے لگے تھے ۔ اگر اس وقت ہی فرقہ پرستوں اور نفرت کے سوداگروں کی نکیل کس دی جاتی تو ملک کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔ بی جے پی حکومت سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیمیں اقتدار پر آتے ہی یہ سمجھنے لگی تھیں کہ اب سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے ۔ اپنی مرضی و منشا کے مطابق کام کریں گے ۔ معاشی دیوالیہ ، معاشی اسکامس و اسکینڈلس پر پردے ڈالتے رہیں گے ، ملک کے موجودہ حالات دراصل حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ بھی ہیں۔ فرقہ پرستوں اور نفرت پھیلانے والوں کی اس قدر حوصلہ افزائی کی گئی کہ ان بدقماش عناصر پیغمبر اسلام محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ناقابل معافی جرم و گناہ کا ارتکاب کرنے لگے اور اس طرح کی قبیص حرکتوں میں ملوث عناصر کا تعلق خود بی جے پی اور سنگھ پریوار سے ہے۔ شائد یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ ہجومی تشدد ، لو جہاد ، گھر واپسی ، اقتصادی جہاد ، مندر مسجد مسائل کے ذریعہ قتل و غارت گری پر مسلمان نے جس طرح کی خاموشی اختیار کی تھی اس بار بھی ایسی ہی خاموشی اختیار کریں گے لیکن ایسا سوچنے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں کرسکتا چنانچہ بی جے پی ترجمان نپور شرما اور نوین کمار جندال نے جب زہر اگلنا شروع کیا اور پیاری نبی کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے اس پر عالم عرب بھی اٹھ کھرے ہوا۔ خلیجی ملکوں میں ہندوستان مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی جانے لگی ۔ مملکت قطر نے تو ہندوستان سے معذرت خواہی کا مطالبہ کردیا ۔ فرقہ پرستوں نے شائد یہ سوچ لیا کہ قانون کو بھی اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے جی کھول کر استعمال کریں گے اور ایسا ہوا بھی حالیہ عرصہ کے دوران جو فیصلے آئے جو اقدامات کئے گئے جو قوانین منظور کئے گئے تمام کے تمام اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن کب تک آپ ظلم کرتے رہیں گے۔ کب تک ماؤں کی گودیں اجاڑو گے، کب تک مظلوموں و کمزوروں کے گھروں کو بلڈوزر چلاوگے ؟ کب تک مندر مسجد کے نام پر اپنے ناپاک سیاسی عزائم کی تکمیل کرو گے ، کب تک مذہب کے نام پر لوگوں کو منقسم کرتے ہوئے اقتدار کی روٹیاں سیکتے رہو گے ؟ کب تک نفرت کی سوداگری کے ذریعہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کرو گے ؟ کب تک گاؤکشی کے نام پر بے قصور انسانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعہ شہید کروگے ؟ کب تک لو جہاد کے نام پر مخصوص مذہب کے ماننے والے نوجوان لڑکوں کی زندگیوں کا چراغ گل کرو گے ؟ کب تک کسی باپ کے بازو کو کاٹو گے ؟ کب تک کسی بیٹی بہن کو بیوہ بناؤ گے ؟ کب تک بہنوں سے ان کے بھائیوں کو چھینو گے ؟ کب تک حجاب کو مسئلہ بناکر سیاسی کھیل کھیلو گے؟ کب تک مسلمانوں پر سیاست کرو گے ؟ کب تک اقتصادی جہاد کے نام پر معاشرہ کو تباہ کرو گے ؟ کب تک گھر واپسی کے نام پر جیلیں بھرو گے ؟ کب تک تاریخ کو مسخ کرو گے ؟ کب تک ایک مخضوص مذہب کی آبادی غلط فہمیاں پیدا کرو گے ؟ کب تک مہنگائی ، بیروزگاری ، عصمت ریزی ، خواتین کے خلاف جرائم رشوت خوری کے واقعات میں اضافہ ، اقربا پروری کے رجحانات کو آگے بڑھانے ہوں گے ۔

نبیﷺ کے نام پر مسلمان متحد
ملک میں مسلمانوں پر مختلف بہانوں سے بے تحاشہ مظالم ڈھائے گئے۔ بابری مسجد بھی ہندو فریق کے حوالے کردی گئی ۔ عرب ملکوں نے کچھ نہیں کیا لیکن جیسے ہی پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا گیا ۔ جی سی سی کے ساتھ دوسرے مسلم ملک بھی برہم ہوگئے ۔ سب سے اچھی بات یہ رہی کہ ہندوستانی مسلمان ملک کے حالات سے مایوس نہیں ہوئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب و مسلم ملکوں کی برہمی کی شکل میں انہیں غیر معمولی مدد حاصل ہوئی ۔ مسلم ملکوں کی برہمی نے یہ واضح کردیا کہ دنیا کے مشرق و مغرب شمال و جنوب میں بسنے والے مسلمان لاکھ مسلکی اختلافات کے باوجود صرف اور صرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر متحد ہوتے ہیں اور دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر متحد ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اب رہا سوال ہندوستان کو اس طرح کے یہودہ مقامات سے کیا نقصانات ہوں گے ۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ دوست عرب ملک متنفر ہوچکے ہیں ۔ یہ وہی عرب ممالک ہیں جہاں کام کرنے والے 89 ملین ہندوستانیوں کی کمائی سے ملک کے کم از کم 27 کروڑ خاندانوں کا گزارا ہورہا ہے ۔ ہر سال خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے ہندوستانی تقریباً 42 تا 50 ارب ڈالرس رقم اپنے ملک کو روانہ کرتے ہیں ۔ سال 2020-21 ء میں ہندوستان اور جی سی سی ملکوں کی باہمی تجارت 87.4 اب ڈالرس تھی جو 2021-22 میں بڑھ کر 154.73 ارب ڈالرس ہوگئی ۔ پٹرولیم پلاننگ اینڈ انالائسس PPAC کے مطابق ہندوستان نے مختلف 42 ملکوں سے 2021-22 میں 212.2 ملین ٹن خام تیل درآمد کیا جس میں جی سی سی کا حصہ سب سے زیادہ ہے ۔ 22 فیصد تیل تو صرف عراق سے درآمد کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان مسلم ملکوں سے پٹرولیم اشیاء قیمتی پتھر پلاسٹکس درآمد کرتا ہے ، ایک اور رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 ء میں خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک کو ہندوستان کی برآمدات 43.93 اور درآمدات 110.72 ارب ڈالرس کی رہی ۔ عرب ملکوں میں اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ہندوستانیوں کو ملازمتوں سے نکالنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کیا ہمارا ملک جہاں پر پہلے ہی سے بھوک و افلاس ، غربت ، بیروزگاری ، مہنگائی عروج پر ہے یہ برداشت کرپائے گا۔ خود یو اے ای میں سونے (زیورات) ہیرے جواہرات ، بلڈنگ میٹریلس اور پارچہ جات کے کاروبار پر گجراتیوں کی اجارہ داری ہے ۔ کیا ان کی تباہی ہماری حکومت برداشت کرپائے گی ؟