پیغمبر اِسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مداح رام جیٹھ ملانی

   

محمد ریاض احمد

اِسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم پر زور دیا ہے۔ علم، اسلام کی روح ہے ۔ اسلام میں واضح طور پر کہا گیا کہ جو شخص علم کی جستجو میں کسی راہ کا مسافر ہوا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کی راہ آسان کردیتے ہیں۔ دین اسلام میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ’’عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے مقدس ہے‘‘۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں حصول علم پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، حصول علم کی اہمیت واضح کی گئی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن شریف نازل ہوئی اس کی پہلی آیت علم سے متعلق ہے جس سے اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں نے جب تک اپنے پیغمبر ؐ کی تعلیمات پر عمل کیا ساری دنیا کے مالک بن کر رہے۔ ان لوگوں نے اسپین کو فتح کرلیا، سارے یوروپ کو بھی فتح کرنے میں کامیاب رہے لیکن جب ان لوگوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور قرآن شریف سے دوری اختیار کی تو زوال سے دوچار ہوگئے۔ قارئین آپ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ مذکورہ الفاظ کسی عالم، فاضل یا کسی راسخ العقیدہ مسلمان کے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ ہمارے ملک کے ممتاز قانون داں رام بولچند جیٹھ ملانی کے ہیں جن کا حال ہی میں 95 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ رام جیٹھ ملانی اپنی صاف گوئی و بے باکی کے لئے شہرت رکھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی مداح سرائی کی ہے۔ رام جیٹھ ملانی خود کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا مداح ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور انہوں نے متعدد مرتبہ ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ میرا ایقان ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم عظیم پیغمبروں میں سے ایک ہیں اور آپ ؐ نے ہمیشہ اپنی اُمت کو حصول علم کا حکم دیا ہے۔ دہلی میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رام جیٹھ ملانی نے حاضرین کو بتایا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ججس اس بات سے آگاہ کیا کہ آپ نہیں جانتے کہ میں پیغمبر اسلام کا کتنا بڑا شیدا ء ہوں۔ انہوں نے سوال کیا تھا :’’مجھے بتاؤ کہ کسی بھی مذہب کے پیغمبر نے اپنے ماننے والوں سے یہ کہا کہ اگر آپ علم کی جستجو میں چلیں گے تو اس کا مطلب اللہ کی راہ میں چلنا ہے۔ اگر آج مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق علم حاصل کریں گے تو اس کا بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ اسلام نے نفس کے جہاد کو عظیم جہاد قرار دیا ہے جبکہ بعض گمراہ لوگ جہاد کی الگ تعریف بیان کرتے ہیں۔ رام جیٹھ ملانی جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی موقف دیئے جانے کی بھرپور حمایت کی تھی، ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا ’’میں ہندو ہوں اس میں کوئی چھپانے والی بات نہیں، میں نے کئی ادیان یا مذاہب کا مطالعہ کیا لیکن تعلیم سے متعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آئیڈیا دیا ہے وہ میرے لئے بہت پرکشش اور متاثر کن رہا، میں ہندو ہوں ہندو ازم کی خوبصورتی جانتا ہوں لیکن میں قرآن مجید کا طالب علم بھی ہوں‘‘۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار دہلی میں منعقدہ اس تقریب میں کیا جس میں دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجیندر سچر بھی موجود تھے۔ اپنے کئی مضامین میں بھی رام جیٹھ ملانی نے مسلمانوں کو علم سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور قرآن مجید کا پیام یاددلانے کی کوشش بھی کی ہے۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ جس مذہب کی مقدس کتاب کی نازل پہلی آیت علم سے متعلق ہو اس مذہب کے پیرو علم سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا تھا : ’’اسلام نے جارحیت کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان لوگوں سے لڑنے کے لئے کہا جو تم سے لڑتے ہیں‘‘۔ رام جیٹھ ملانی وزیر اعظم نریندر مودی کے سخت خلاف ہوگئے تھے اور انہوں نے گجرات فسادات کو ایک المیہ قرار دیا تھا۔ ایک ایسا بھی مرحلہ آیا جب انہوں نے نریندر مودی کے بارے میں یہ کہہ کر اپنی برہمی کا اظہار کیا ’’اُسے دستور کے بارے میں کچھ نہیں معلوم اور اس کے جو قانونی مشیران اسے گمراہ کررہے ہیں‘‘۔ 28 ستمبر 1923 کو پیدا ہوئے رام بولچند جیٹھ ملانی زندگی بھر اپنے آبائی ٹاؤن شکار پور سندھ (یہ پاکستان میں ہے) کو یاد کرتے رہے۔ رام جیٹھ ملانی بچپن سے ہی بہت ذہین تھے۔ اسکول میں ڈبل پرموشن حاصل کیا صرف 13 سال کی عمر میں امتیازی نشانات کے ساتھ میٹرک میں کامیابی حاصل کی۔ حد تو یہ ہے کہ 17 سال کی عمر میں ایل ایل بی کیا جبکہ اس وقت 21 سال کی عمر میں ایل ایل بی کیا جاتا تھا اور وکالت شروع کی جاتی تھی لیکن اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے والے رام جیٹھ ملانی نے نہ صرف 17 سال کی عمر میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی بلکہ 18 سال میں وکالت بھی شروع کردی۔ تقسیم کے بعد وہ شکار پور سندھ سے ممبئی چلے آئے اورمہاجر کی حیثیت سے زندگی کے نئے دور کا آغاز کیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب وہ پاکستان سے ہندوستان آئے تھے اس وقت ان کے جیب میں صرف ایک پیسہ کا سکہ تھا لیکن اپنی غیر معمولی صلاحیت اور قابلیت کے ذریعہ انہوں نے وکالت کے شعبہ میں بہت جلد نام کے ساتھ دولت بھی کمائی۔ ان کی فیس کروڑہا روپے ہوا کرتی تھی۔ صرف ایک سنوائی میں پیروی کیلئے وہ تقریباً 25 لاکھ روپئے فیس لیا کرتے تھے۔اگر رام جیٹھ ملانی یہ سوچتے کہ وہ ایک مہاجر ہیں اور ممبئی میں ان کا کوئی نہیں تو پھر وہ کوئی چھوٹے سرکاری عہدہ پر فائز ہوکر گمنامی کے کسی گوشہ میں چلے جاتے۔ رام جیٹھ ملانی کے عروج کا آغاز ویسے تو 17 سال کی عمر سے ہی ان کے ایل ایل بی کرنے کے ساتھ ہی ہوگیا تھا لیکن 1959 میں ناناوتی کیس میں انہوں نے وائی ایس چندرا چوڑ کے ساتھ ملزم کا کامیاب دفاع کیا جس کے نتیجہ میں راتوں رات وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وائی ایس چندرا چوڑ بعد میں چیف جسٹس آف انڈیا کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہوئے۔ 1960 میں ایک ایسا بھی دور آیا جب رام جیٹھ ملانی فوجداری مقدمات کے ایک مشہور وکیل کی حیثیت سے شہرت حاصل کرگئے اور اس میں انڈر ورلڈ ڈاؤن حاجی مستان کا اہم رول رہا۔ انہوں نے حاجی مستان کے کئی مقدمات لڑے جس پر انہیں ’’اسمگلرس کا وکیل‘‘ بھی کہا جانے لگا لیکن رام جیٹھ ملانی اپنے اصول کے پابند اور دھن کے پکے تھے اس لئے انہوں نے یہ کہتے ہوئے تنقیدوں کو مسترد کردیا کہ وکالت ان کا پیشہ ہے اور اپنے موکلین کا دفاع ان کا فرض ہے۔ رام جیٹھ ملانی صرف حاجی مستان یا دوسرے اسمگلرس کے مقدمات ہی نہیں لڑتے تھے بلکہ کئی بدنام زمانہ ملزمین کے مقدمات بھی انہوں نے لڑے ہیں جن میں شہادت بابری مسجد کے ملزم ایل کے اڈوانی (حوالہ کیس) اور سہراب الدین قتل کیس کے ملزم امیت شاہ (جنہیں بعد میں کلین چیٹ دے دی گئی) کے ساتھ ساتھ اپنے آشرم میں کمسن لڑکی کے ساتھ منہ کالا کرنے والے آسارم باپو، اسٹاک مارکٹ اسکام کے ملزمین ہرشد مہتا، کیتن پاریکھ، ماڈل جسیکا لال قتل کیس کے ملزم منو شرما، سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قاتلوں کا مقدمہ امیت جوگی، یدی یورپا اور راجیو گاندھی کے قاتلوں کے ساتھ ساتھ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کے مقدمات شامل ہیں۔ کجریوال کے خلاف سابق وزیر فینانس آنجہانی ارون جیٹلی نے ہت عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ ملانی نے کجریوال سے 2 کروڑ روپئے فیس ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔جہاں تک سیاسی میدان میں ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا سوال ہے وہ دو مرتبہ بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ واجپائی کی وزارت میں شہری ترقیات کے مرکزی وزیر رہے اور وزیر انصاف و قانون کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالامیں ذکر کیا ہے کہ وہ بے باکی اور صاف گوئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، 2004 کے عام انتخابات میں لکھنؤ سے واجپائی کے مقابلہ میں آئے لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1985 میں انہیں ممبئی سے فلم اداکار سنیل دت کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ یہ وہی سنیل دت ہیں جنہوں نے شہادت بابری مسجد اور مابعد فسادات پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا۔ رام جیٹھ ملانی، افضل گرو کی سزائے موت کے بھی شدید مخالف رہے۔ بار کونسل آف انڈیا کے صدر نشین اور پھر سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر رہنے والے رام جیٹھ ملانی جو بھی کہتے تھے ببانگ دہل کہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے ہندوستان کے دورہ پر آئیں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں رام جیٹھ ملانی بھی مدعو کئے گئے۔ چینی سفیر متعینہ ہندوستان بھی اس استقبالیہ میں موجود تھے۔ رام جیٹھ ملانی نے اس وقت مصلحت سے کام لئے بنا صاف طور پر کہا کہ چین ہندوستان اور پاکستان کا دشمن ہے اور ان دونوں پڑوسی ممالک کو چین سے چوکس رہنا ہوگا۔ انہوں نے زندگی بھر ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی اور یہ واضح کیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں ماخوذ کئے جانے پر بھی افسوس تھا۔ ایک مرتبہ اپنے دورہ حیدرآباد کے موقع پر انہوں نے مسلم نوجوانوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود ان نوجوانوں کا مقدمہ لڑیں گے لیکن بعد میں شاید وہ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باعث ایسا نہ کرسکے۔ بہرحال رام جیٹھ ملانی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی سیرت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کے لئے ان کی ستائش کی جانی چاہئے کیونکہ جب کبھی ملانی نے اسلام و پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں اظہار خیال کیا سوشل میڈیا پر ان کے خلاف فرقہ پرستوں نے رکیک ریمارکس بھی کئے، تاہم یہ فرقہ پرست رام جیٹھ ملانی کی نظروں میں جاہلوں کی حیثیت رکھتے تھے، ایسے جاہل جنہیں اپنے ملک سے نہیں بلکہ اپنے مفادات سے محبت ہوتی ہے۔ ٭
mriyaz2002@yahoo.com