پیٹ کی آگ دماغوں کو جلا دیتی ہے

   

لال قلعہ تشدد … سازش یا منصوبہ بند
پارلیمنٹ سیشن … اندیشے اور اُمیدیں

رشید الدین
یوم جمہوریہ کے موقع پر دارالحکومت دہلی میںجمہوریت کو شرمسار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ احتجاج کے نام پر قانون کی دھجیاں اُڑائی گئیں اور دہلی کے اہم علاقے میدان جنگ کا منظر پیش کررہے تھے۔ لاء اینڈ آرڈر کا تصور باقی نہیں تھا اور کسانوں کے بھیس میں احتجاجی تشدد پر اُتر آئے۔ پولیس اور احتجاجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پولیس جوانوں کو جان بچانے کیلئے جدوجہد کرنی پڑی۔ تاریخی لال قلعہ جو قومی پرچم لہرانے کا مرکز ہے اس پر یلغار کرتے ہوئے ایک مخصوص مذہبی پرچم لہرادیا گیا۔ تشدد کے واقعات کی نوعیت سے صاف ظاہر تھا کہ احتجاجی کسان نہیں ہیں بلکہ اشرار کسان کے بھیس میں شامل ہوگئے۔ پولیس اور کسان تنظیموں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اشرار ٹریکٹر ریالی میں شامل ہوگئے تھے تاکہ حالات کو بے قابو کیا جائے۔ احتجاجی پروگراموں کا پُرامن انعقاد کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ جہاں ہجوم ہو چند شرپسند شامل ہوکر صورتحال کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اصل موضوع سے توجہ ہٹ جائے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے بھی احتجاج کو کمزور کرنے اس طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے اور گذشتہ 50 دن سے کسان مرکزی قوانین کی واپسی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ کسان احتجاج کو بدنام کرنے اور کمزور کرنے کا ذریعہ اور سازش ہوسکتا ہے۔

لال قلعہ کی فصیل تک پہونچنا اور ترنگا کی جگہ پر مذہبی نشان لگانا حکومت کی نااہلی تو دوسری طرف انٹلی جنس کی ناکامی کا بین ثبوت ہے۔لال قلعہ کی فصیل اور میناروں پر احتجاجیوں کی چڑھائی سے 6 ڈسمبر 1992 بابری مسجد شہادت کا منظر تازہ ہوگیا جب کارسیوک مسجد کی گنبدوں تک پہونچ گئے تھے۔ مرکزی حکومت کسانوں پر وعدہ خلافی کا الزام عائد کررہی ہے لیکن بی جے پی یہ بھول چکی ہے کہ اُس کی کلیان سنگھ حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے مسجد کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ پُرتشدد احتجاج سے کسان تنظیموں اور اُن کے مطالبات پر کیا اثر پڑے گا اس بحث میں گئے بغیر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کیا واقعی پولیس، انٹلی جنس اور حکومت کو امکانی تشدد کی اطلاع نہیں تھی؟ ۔ اگر واقعی یہ ادارے خواب غفلت کا شکار تھے تو اسے پولیس کی تاریخ کا سیاہ دن کہا جاسکتا ہے۔ صورتحال کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ حکام کو اندیشہ ضرور تھا لیکن نمٹنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھائے گئے۔ پولیس نے جس روٹ پر ٹریکٹر ریالی کی اجازت دی تھی اس کی خلاف ورزی کرنے کا کھل کر اعلان کیا گیا۔ پھر بھی پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیاں مجرمانہ غفلت کا شکار رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتجاجیوں کے ساتھ نرمی، مروت اور رعایت آخر کیوں کی گئی تاکہ وہ من مانی کرسکیں۔ پولیس کی نرمی اور خاموشی کا یہ نتیجہ نکلا کہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل بھی احتجاجیوں پر کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ پولیس سے جھڑپوں میں احتجاجیوں سے زیادہ پولیس جوان زخمی ہیں۔ حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کو قوم کو جواب دینا ہوگاکہ آخر ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔ احتجاجی دندناتے ہوئے لال قلعہ تک پہونچ گئے اور انہیں تاریخی عمارت میں داخلہ سے نہیں روکا گیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے قلعہ کو فتح کرنے کا منصوبہ پہلے سے تیار تھا۔ احتجاجی دہلی کی سڑکوں پر کسی مہمان کی طرح بلا روک ٹوک گھوم رہے تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ احتجاجی سسرال کے گھر میں داماد کی طرح پہونچے تھے۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ مرکزی حکومت نے یوم جمہوریہ تقریب لال قلعہ کے بجائے راج پتھ پر منعقد کی۔ کورونا کے سنگین دور میں یوم آزادی تقریب لال قلعہ میں منعقد ہوئی تھی لیکن یوم جمہوریہ کے لئے پہلی مرتبہ جگہ تبدیل کردی گئی۔ کیا حکومت جانتی تھی کہ کسان لال قلعہ پہونچ جائیں گے۔ کیا کسانوں کو راستہ فراہم کرنے کیلئے لال قلعہ کو کھلا چھوڑ دیا گیا تھا ؟۔ اس طرح کے کئی سوالات عوام کے ذہنوں میں اُبھر رہے ہیں جس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔ بعض گوشوں کا ماننا ہے کہ کسان تحریک کو بدنام کرنے کیلئے اشرار کا استعمال کیا گیا۔ احتجاج کے دوران لال قلعہ پر مذہبی نشان کا پرچم لہرانے والا شخص بی جے پی کا نکلا۔ گودی میڈیا نے اداکار و جہد کار دیپ سدھو کو کافی پبلسٹی دی لیکن جیسے ہی نریندر مودی کے ساتھ اس کی تصویر وائرل ہوئی گودی میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ سدھو نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی امیدوار فلم اسٹار سنی دیول کی انتخابی مہم میںحصہ لیا تھا۔ کسانوں کی ریالی میں بی جے پی کا یہ نمائندہ کیوں اور کیسے شامل ہوگیا ؟ ۔ حکومت کی نرمی اور مروت کا یہ عالم ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کسان تنظیموں سے بات چیت کا پروگرام برقرار ہے۔ ضابطہ کی تکمیل کیلئے مقدمات درج کئے گئے۔ کیا حکومت میں ہمت ہے کہ کسان قائدین کو گرفتار کرے ؟ ۔ حکومت کو خوف ہے کہ احتجاجی کہیں پارلیمنٹ تک نہ پہونچ جائیں۔ ملک میں قانون کے نفاذ کا پیمانہ ہر کسی کے ساتھ یکساں ہونا چاہیئے لیکن یہاں قانون کے نفاذ اور انصاف رسانی میں جانبداری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کشمیری عوام خصوصی موقف اور ریاست کی بحالی کے مطالبہ کے ساتھ لال قلعہ پر پہونچ جائیں تو کیا پولیس اسی طرح صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے گی؟لال قلعہ تو پہونچنا دور کی بات ہے دہلی میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ کشمیری بھی تو ہندوستان کے شہری ہیں اور احتجاج کا حق بھی حاصل ہے اگر وہ دہلی تک مارچ کا اعلان کریں تو کیا حکومت اجازت دے گی؟ ۔ کشمیر میں آج بھی فرضی انکاؤنٹرس کے نام پر ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن احتجاج کرنے والا کوئی نہیں۔ کیا کسانوں کا خون‘ خون ہے اور کشمیریوں کا خون پانی ہے ؟ ۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی اور ریاست کا درجہ ختم کرنے کا ایک سال مکمل ہوگیا۔ سیاسی، مذہبی اور عوامی رہنماؤں کو ایک سال تک محروس رکھا گیا۔ آج بھی کشمیریوں کی زندگی معمول پر نہیں آئی ہے۔ کسان احتجاج کی آڑ میں تشدد کے باوجود پولیس کسی تنظیم کا نام لینے سے کترارہی ہے لیکن اگر کشمیری عوام نکلتے تو اُن پر آئی ایس آئی کا لیبل لگادیا جاتا۔ شہریت قانون، این آر سی اور این پی آرکے خلاف جب ملک میں مسلمانوں نے آواز بلند کی تو اُن پر پاکستانی اشارہ پر کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ جہد کاروں اور کارکنوں کے خلاف ملک سے غداری کے دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ طلباء قائدین آج بھی جیلوں میں بند ہیں جن کی عدالتوں میں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مودی کے گودی میڈیا کے کمانڈر اِنچیف ارنب گو سوامی پر سنگین الزامات کے باوجود سپریم کورٹ نے شخصی آزادی کے نام پر ضمانت دے دی۔ کیا جہد کاروں اور طلباء قائدین کی شخصی آزادی نہیں ہے ؟ ۔ عدالتوں میں انصاف کا ترازو بھی کسی مخصوص شخص کیلئے جھُک جائے تو پھر غیرجانبداری کا تصور باقی کہاں رہے گا ؟ ۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ میں خواتین کے احتجاج کو بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ خواتین پر بھی ملک دشمن طاقتوں کے اشارہ پر کام کرنے کا الزام لگا۔ جے این یو طلباء پر دیش دروہی مقدمات اور دہلی فسادات کے مقدمات کے ذریعہ تعلیمی مستقبل تاریک کردیا گیا۔ بابری مسجد، شریعت کے تحفظ یا پھر رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اگر مسلمان لال قلعہ پہونچتے تو کیا پولیس اُسی طرح صبر کا مظاہرہ کرتی جس طرح کہ کسانوں کے معاملہ میں کیا گیا ؟۔

پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا آغاز ہوچکا ہے اور صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لال قلعہ واقعہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ کسانوں کے حق میں حکومت کے فیصلوں کی تائید کی۔ تمام اہم 16 اپوزیشن جماعتوں نے صدر جمہوریہ کے خطبہ کا بائیکاٹ کیا اور ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے رام ناتھ کووند پارلیمنٹ سے نہیں بلکہ این ڈی اے کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں۔ مرکزی بجٹ سے عوام کو اُمیدیں اور اندیشے دونوں بھی برقرار ہیں۔ کورونا لاک ڈاؤن کے بعد ملک میں بے روزگاری اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ لاکھوں نہیںبلکہ کروڑوں افراد راست یا بالواسطہ طور پر روزگار سے محروم ہوئے۔ زندگی کے معمول پر آنے میں مزید وقت لگ سکتا ہے ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزگار سے محروم خاندانوں کیلئے خصوصی الاؤنس کا اعلان کرے۔ اس کے علاوہ بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے پر توجہ دی جائے تاکہ عوام معاشی بحران سے نکل سکیں۔ ملک کی معیشت میں مسلسل گراوٹ کے باوجود مودی حکومت کو شہرت پسند اسکیمات کی فکر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی بجٹ عوام کیلئے رحمت ثابت ہوگا یا پھر اضافی زحمت۔ مودی نے 2 کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن لاک ڈاؤن کے دوران 2 کروڑ سے زائد افراد روزگار سے محروم ہوگئے لیکن حکومت نے باز آبادکاری کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کا سیشن کسانوں کے احتجاج کے سبب ہنگامہ خیز ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ کسان دہلی کی سرحدوں پر خیمہ زن ہیں اور زرعی قوانین سے دستبرداری تک احتجاج کی دھمکی دی ہے۔ نریندر مودی حکومت کو زرعی قوانین سے دستبرداری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔محمد علی وفاؔ نے کیا خوب کہاہے ؎
پیٹ کی آگ دماغوں کو جلا دیتی ہے
ایسے ماحول میں ہر عیب ہُنر لگتا ہے