پیکر شرم و حیا، جامع القرآن حضرت عثمان بن عفانؓ

   

تاریخ شہادت : ۱۸ ذوالحجۃ الحرام ۳۵ ہجری

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی
خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اموی قریشی ( ۴۷ قبل ہجری ۔۳۵ہجری ) داماد رسول، اور جامع القرآن تھے۔حضرت عثمان غنیؓکامل حیاوایمان کی کنیت ”ابوعمرو‘‘ اور لقب ”ذوالنورین‘‘ (دونوروالے)ہے۔ آپ کو ذوالنورين اس لئے کہاجاتاہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کي دو صاحبزادیاں یکےبعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں،آپ کے علاوہ کسی اور کویہ اعزاز حاصل نہ ہوا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے مُتصف فرماکر صحابہ میں ممتاز فرمایا ،جو اُن ہی کا حصہ ہے۔ حیاکا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے ۔آپ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی۔حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے عثمانؓ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیئے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اورجو ظاہر کیے اوروہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں ‘‘۔حضرت عثمان عہدشیخین (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ)میں بھی حسب سابق شیخین کے مشیرومعتمد رہے ،ساتھ ہی ہمہ تن دین اسلام کے لیے وقف رہے اورانکا مال ودولت ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی ضروریات پرخرچ ہوتا رہا۔
تجارت میں کامیابی کی باعث خاصی وسعت تھی، چناں چہ عمدہ لباس پہنتے اور سو سو دینار کی یمنی چادریں اوڑھتے تھے، لیکن لباس پہننے میں سنت نبوی کا خیال رہتا۔ سلمہؓ بن اکوع فرماتے ہیں کہ ’’عثمان بن عفان آدھی پنڈلی تک لنگی باندھا کرتے اور فرماتے کہ میرے محبوب کی لنگی ایسی ہوا کرتی تھی‘‘۔بائیں ہاتھ میں انگوٹھی بھی پہنتے تھے۔اسی فراخی کے باعث غذا بھی عمدہ اور پرتکلف ہوا کرتی تھی۔
عثمان غنیؓ پہلے مسلم خلیفہ تھے جو چھنا ہوا آٹا استعمال کرتے تھے۔فطرتاً کم سخن تھے لیکن جب کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے تو گفتگو سیر حاصل اور بلیغ ہوتی۔آپ نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ا س لئے آپ ”صاحب الہجرتین‘‘ (دو ہجرتوں والے)کہلاتے ہیں اور چونکہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اس لئے آپ کا لقب ”ذوالنورین‘‘ ہے۔مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا ۔ ’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا،حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر(رزق ) کشادہ فرمادے گا ‘‘۔
اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمان ؓنے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں ۔ مدینے کے تاجر حضرت عثمان غنیؓکے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، آپ گھر سے باہر تشریف لائے ،اس حال میں کہ چادر آپ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے ۔آپ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لئے آئے ہو؟،کہنے لگے : ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں، آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں ،آپ نے فرمایا : اندر آؤ ، پس وہ اندر داخل ہوئے ،تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے ،آپ نے فرمایا: اگرمیں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے ؟۔اُنہوں نے کہا : دس پر بارہ ۔
آپ نے فرمایا : کچھ اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا دس پر چودہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ، اُنہوں نے کہا : دس پر پندرہ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ، اُنہوں نے کہا : اِس سے زیادہ کون دےگا،جبکہ ہم مدینے کے تاجر ہیں۔آپ نے فرمایا: اوربڑھاؤ ،ہر درہم پر دس درہم تمہارے لئے زیادہ ہیں ۔
اُنہوں نے کہا :نہیں ، پھر آپ نے فرمایا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجاؤ کہ (یہ تمام مال)میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے ، آپ ﷺ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرماتھے ، آپ جلدی میں تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی ، نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں باپ آپ پر قربان میری رغبت آپ ﷺ کی جانب بڑھ رہی ہے،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنت کی ایک حور سے فرمادیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں ‘‘۔ (اِزالۃ الخفاء)
۲۳ھ(۶۴۴ء) میں عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے۶۴۴ء سے ۶۵۶ء تک انجام دی۔ آپؓ کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی، اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بیزنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔ اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عثمان کاسب سے عظیم کارنامہ جمع قرآن کاانجام دیا۔درحقیقت کتابی صورت میں کتاب اللہ کی تدوین عہدابوبکر میں ہی ہوچکی تھی،تاہم اسکی اشاعت نہ ہوئی تھی جسکی وجہ سے مختلف علاقوں کے رہنے والوں کی قرات میں اختلاف پھیل رہاتھا۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پرحضرت عثمان نے حضرت ابوبکر کے عہدکامدون کیاہوانسخہ منگواکرقریش کی قرات کے مطابق اس کی نقول کروائیں اورپھریہ نقول ملک کے مختلف حصوں میں روانہ کردیں گئیں اوراس مستند نسخہ کے علاوہ دیگرمصاحف کو آپ نے نذر آتش کروادیا۔حضرت عثمان کایہ عظیم کارنامہ کارنامہ صدیقی کی طرح تکملہ کارنبوت کی حیثیت رکھتاہے ۔
شہادت کبریٰ: ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو نبی اکرم ﷺکے اس محبوب خلیفہ کو ایک عظیم سازش ، جو کہ درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی ،کے بعد اس عالم میں قتل کر دیا گیا کہ آپ قرآن کی تلاوت کررہے تھے ، کئی دن کے روزے سے تھے ،اور اپنے گھر میں محصور تھے۔ گوکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپؓ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود بلوائی آپؓ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔ اور عین تلاوت قرآن کی حالت میں خلیفۂ وقت اور امیرالمومنین کو شہید کر دیا گیا۔ یہ عظیم سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمانؓ کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے۔یہ وہ بات تھی جس کی خبر حضرت عثمان ؓنے ان الفاظ میں دی تھی کہ ’’بخدا اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر تا قیامت نہ ایک ساتھ نماز پڑھو گے نہ ایک ساتھ جہاد کرو گے‘‘۔ آپؓ کی شہادت پر مدینہ میں ایک عام کہرام مچ گیا ۔حضرت سعید بن زید نے ارشاد فرمایا لوگو واجب ہے کہ اس بداعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے، حضرت انسؓ نے فرمایا حضرت عثمانؓ جب تک زندہ تھے اللہ کی تلوار نیام میں تھی ، اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی، حضرت علیؓ کو جیسے ہی شہادت عثمانؓ کی خبر ملی آپ نے فرمایا اے اللہ میں تیرے حضور خون عثمانؓ سے بریت کا اظہار کرتا ہوں اور ابن کثیر نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے پاس جا کر ان پر گر پڑے اور رونے لگےحتیٰ کے لوگوں نے خیال کیا کہ آپؓ بھی ان سے جاملیں گے ۔
جود و سخا، پیکر شرم و حیا، کاتب ِوحی، ذوالنورین،خلیفۂ راشد سیدنا عثمان غنیؓ کی سیرت و منقبت کے تفصیلی احاطہ کے لئے یہ مضمون انتہائی مختصر ہے اس لئے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت مطہرہ کے محض چند پہلو سپرد تحریر کیے گئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین