چندی گڑھ مئیر ‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ

   

اہلِ ثروت نے عجب آنکھ مچولی کھیلی
آڑ مذہب کا لئے خون کی ہولی کھیلی
مرکزی زیر انتظام علاقہ چندی گڑھ مئیر کے انتخاب کے معاملہ میںبی جے پی کو شر مندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ پارٹی کیلئے یہ واقعی شرمندگی کی بات ہے کہ اس نے انتہائی ڈھیٹ انداز میں انتخابی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے ریٹرننگ آفیسر کو استعمال کرکے مئیر کے عہدہ پر ناجائز قبضہ کرلیا تھا ۔ مئیر کے انتخاب میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے امیدواروں کی کامیابی یقینی تھی ۔ تاہم ریٹرننگ آفیسر نے آٹھ ووٹوں کو مسخ کرتے ہوئے بی جے پی کے امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنایا تھا ۔ بی جے پی پورے دھڑلے کے ساتھ سارے ملک میں انتخابی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ اصولوںاور ضوابط کی دھجیاںاڑائی جا رہی ہیں۔ من مانی انداز میں کام کیا جا رہا ہے ۔ بزور طاقت اقتدار حاصل کرتے ہوئے مخالفین کو کچلنے سے گریز نہیںکیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں سپریم کورٹ نے آج عام آدمی پارٹی کی درخواست پر جو فیصلہ کیا ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس فیصلے کی وجہ سے بی جے پی کو شرمسار ہونا پڑا ہے ۔ اس کے مئیر نے کل ہی استعفی پیش کردیا تھا اور آج سپریم کورٹ نے عام آدمی پارٹی کے امیدوار کلدیپ کمار کو چندی گڑھ کا مئیر منتخب قرار دیدیا ہے ۔ یہ ایک بہترین مثال اور علامت کہی جاسکتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ میںشائد ایسا پہلی بار ہوا ہے جب عدالت ہی میں کسی انتخاب کے بیالٹ پیپرس کی گنتی ہوئی ہے اور ججس کی جانب سے کامیاب امیدوار کے نام کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ کامیابی حالانکہ اہمیت کی حامل ہے اور اس کے ذریعہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے جائز اور ناجائز دونوں ہی طریقے اختیار کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ اقتدار پر برقرار رہتے ہوئے قوانین کی پابندی کرنا اس کا سب سے اولین فریضہ ہے لیکن وہی قوانین کی دھجیاںاڑا رہی ہے ۔ چندی گڑھ مئیر کے انتخاب کا عمل اس کی ایک بدترین مثال کے طور پر سامنے آیا تھا جہاں بی جے پی پوری ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پن کے ساتھ اپنی اجارہ داری کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے جمہوری عمل میں یقین رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ ملک کے رائے دہندوں کی یہ امید برقرار رہ گئی ہے کہ جمہوری عمل کے ذریعہ وہ اپنی پسند کے امیدواروں کا انتخاب عمل میں لا سکتے ہیں۔ جمہوری عمل کو داغدار کرنے کی کوششوں کو ملک کی عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور ایسی کوششوں کو ناکام بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے مسئلہ کو بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ صرف چندی گڑھ مئیر کے عہدہ تک محدود ہے لیکن اس کے ذریعہ جو امید پیدا ہوئی ہے وہ بہت بڑی کہی جاسکتی ہے ۔ ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے تعلق سے کئی گوشوں میں شبہات پائے جاتے ہیں۔ خود ملک کے عوام اس تعلق سے شبہات کا شکار ہیں اور انہیںیہ شکوک بے چین کئے رہتے ہیں کہ ان کے ووٹ کو الٹ پھیر کا شکار تو نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس معاملے میںہر بار ان شبہات کی تردید کی گئی ہے لیکن الیکشن کمیشن نے ابھی تک بھی ان شبہات کو دور کرنے کیلئے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے ۔ کوئی جامع حکمت عملی نہیں بنائی ہے ۔ مشینوں میں الٹ پھیر کے جو شبہات ہیں ان کو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تقویت ہی ملتی رہی ہے اور الیکشن کمیشن ابھی تک ان شبہات کو دور کرنے کی کوشش تک نہیںکر رہا ہے ۔ ایسے میں جو لوگ شبہات کاش کار ہیں انہیںسپریم کورٹ سے رجوع ہونا چاہئے ۔
عدالتوں میں اگر مقدمات کی موثر ڈھنگ سے پیروی کی جائے اور کسی طرح کے خوف کا شکار نہ ہوا جائے تو پھر انصاف یقینی طور پر حاصل ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری دباؤ کا شکار ہوئے بغیر کام کیا جائے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے جو امید بندھی ہے اس کو دیکھتے ہوئے خود عام آدمی پارٹی ہو یا پھر ملک کی دوسری اپوزیشن جماعتیںہوں یا عوامی سطح کی تنظیمیںہوں انہیںایک جامع اور موثر حکمت عملی کے ساتھ سپریم کورٹ سے استدعا کرنے کی ضرورت ہے ۔ جمہوریت کا تحفظ کرنے کے معاملے میںسپریم کورٹ بھی ایک انتہائی اہم اور مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے اور جمہور ی عمل پر عوامی ایقان کو مستحکم کیا جاسکتا ہے ۔