ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام

   

رامیشورم کا غریب بچہ جس نے خلائی سائنس میں ہندوستان کو بلندیوں پر پہنچایا

واسو دیون مکند
ابوالفقیر ذین العابدین عبدالکلام (ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام) بے شمار صلاحیتوں کے حامل تھے۔ خاص طور پر انہوں نے عہدہ صدارت کو جو وقار بخشا اس کے لئے انہیں ہندوستانی کبھی بھلا نہ پائیں گے۔ ڈاکٹر کلام ایک بہترین مصنف نوجوان نسل میں جوش و جذبہ پیدا کرنے والے مقرر، پاکیزہ سوچ و فکر رکھنے والے ایک شاعر (وہ تامل زبان میں شاعری کیا کرتے تھے) ایک موسیقار اور ماہر ریاضی بھی تھے۔ بحیثیت مجموعی ایک شخص میں کئی صلاحیتیں سما گئے تھے۔ وہ ایک ایسے سائنسداں تھے جن میں ایجاداد کے لئے غیر معمولی جوش و جذبہ پایا جاتا تھا اور خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رکھا کرتے تھے۔ ان میں نظم و ضبط کی غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی تھیں۔ بچوں سے پیار، بھی ان کی ایک خوبی تھی۔ انہی خوبیوں کے نتیجہ میں وہ نہ صرف ایک سائنسداں کی حیثیت سے بلکہ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے بھی ہندوستان میں بہت زیادہ مقبول رہے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبداکلام نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کو ہندوستان کو سائنس و ٹکنالوجی کی بلندیوں پر پہنچانے کے لئے وقف کردیا تھا۔

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام 2002 تا 2007 تک ہندوستان کے صدر جمہوریہ رہے۔ ان کی پیدائش تامل ناڈو کے رامیشورم میں 15 اکتوبر 1931 کو ہوئی اور 83 سال کی عمر میں 27 جولائی 2015 کو میگھالیہ کے شیلانگ میں سائنس و ٹکنالوجی اور تحقیق کی اہمیت پر لکچر دیتے ہوئے اپنی آخری سانس لی۔ 1960 کے اواخر میں آریہ بھٹ بھاسکر اور
APPLE
سٹیلائٹس کی لانچنگ کے بعد ہندوستان کی خلائی سائنس میں تحقیق کرنے والی برادری نے اندرون ملک لانچ وہیکل تیار کرنے پر غور و خوض شروع کردیا۔ یہ تمام سائنسداں یہ چاہتے تھے کہ ہندوستان ایک ایسی لانچ وہیکل تیار کرے جس سے ہندوستان کے تیار کردہ سٹیلائٹس یا مصنوعی سیارے سرزمین ہند سے خلاء میں روانہ کئے جائیں۔ اس وقت ہندوستان کو آزاد ہوئے 25 سال سے بھی کم عرصہ ہوا تھا اور خلائی سائنس میں ہندوستان کی کامیابی باعث فخر تھی۔
اگر دیکھا جائے تو نومبر 1973 ہندوستان کے خلائی پروگرام میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ تب اس وقت کے اسرو (انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن) کے صدر نشین ستیش دھون اور برہم پرکاش ڈائرکٹر وکرم سارا بائی اسپیس سنٹر نے
SLV-3
کی تشکیل جدید کو پسند کیا تاکہ ایس ایل وی ۔ 3 کو 10 برسوں کے اندر ہی لانچ کے لئے تیار کردیا جائے۔ اس وقت ان غیر معمولی شخصیتوں نے ڈاکٹر اے پی جے عبداکلام پر پورا بھروسہ کیا اور انہیں
SLV-3
لانچنگ پروگرام کا پراجکٹ ڈائرکٹر مقرر کیا۔ ڈاکٹر کلام اپنے سینئرس کے بھروسہ پر پورا اترے۔
بعد ازاں ڈاکٹر کلام نے ایروناٹیکل ڈیولپمنٹ اسٹیبلشمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ یہ دراصل ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن
(DRDO)
کی ایک شاخ ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 1960 میں گریجویشن کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر کلام نے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی۔ ڈاکٹر کلام جس کام کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھاتے تھے اسے وقت سے پہلے ہی پائے تکمیل کو پہنچاکر دم لیتے تھے۔ 1973 میں اسرو کے صدر نشین ستیش دھون اور وکرم سارا بائی اسپیس سنٹر کے ڈائرکٹر برہم پرکاش نے جو پراجکٹ ڈاکٹر کلام کو تفویض کیا تھا انہوں نے اسے مقررہ مدت سے قبل ہی مکمل کرلیا۔ 1976 میں اس پراجکٹ کا بجٹ 5 کروڑ سے زیادہ ہوگیا۔ 10 اگست 1979 میں اسرو نے
SLV-3
کی آزمائشی پرواز کا اہتمام کیا۔ اگرچہ 44 سب سسٹمس میں سے 36 سب سسٹمس نے حسب معمول کام کیا لیکن یہ لانچ ناکام رہی۔ 18 جولائی 1980 کو
SLV-3
کی دوسری آزمائش کی گئی جو بالکل کامیاب رہی۔ اسی دوران روہینی
RS-1
سٹیلائٹ خلاء میں داغا گیا۔ اس طرح ہندوستان اندرون ملک تیار کردہ لانچنگ وہیکلس تیار کرنے والے چار ممالک کے باوقار گروپ میں شامل ہوگیا۔

ہندوستان کو خلائی و دفاعی سائنس کی بلندیوں پر پہنچانے والے ڈاکٹر اے جے پی عبدالکلام کو افسوس کی بات یہ ہے کہ
SLV-3
کی سالگرہ تقریب میں یاد کیا گیا یا نہیں ؟ ایسے موقع پر ڈاکٹر کلام جیسی شخصیت کو فراموش کردینا آسان نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک

SLV پروگرام کا سوال ہے اس نے ہندوستان کو خلائی اور فوجی طاقت کے طور پر عملاً ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ ڈاکٹر کلام کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی ہمارے ملک کا
PSLV
راکٹ اور اندرون ملک میزائل پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ بعد میں اس طرح کے پروگرام میں جوہری ہتھیاروں کو شامل کیا گیا۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری پروگرام میں بھی ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔
ملک و قوم کو خلائی سائنس اور دفاعی لحاظ سے مستحکم کرنے والے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے بی جے پی اور کانگریس دونوں نے انہیں سال 2002 میں ہندوستان کے 11ویں صدر جمہوریہ کی حیثیت سے مقرر کئے جانے سے اتفاق کیا۔ آپ کو بتادیں کہ 1998 میں جب جوہری تجربہ کیا گیا اس کے ساتھ ہی ہندوستان ایک جوہری طاقت بن گیا۔ نتیجہ میں دنیا کی بڑی طاقتوں نے ہمارے ملک پر متعدد پابندیاں عائد کردیں۔ اس وقت ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام مرکزی حکومت کے نہ صرف پرنسپال سائنٹیفک اڈوائزر تھے بلکہ ڈی آر ڈی او سربراہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ ہندوستان کو ایک عظیم ملک بنانے کے خواہاں تھے۔ وہ ایسے قائد تھے جنہوں نے ملک کی ترقی و بہبود اور مستقبل کو روشن بنانے والے پراجکٹس کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام طلباء اور طالبات کو بھی یہ پیام دیا کرتے تھے کہ وہ خواب دیکھیں کیونکہ خواب وہی دیکھتے ہیں جن میں خوابوں کی تعمیل کا جذبہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ سیاستدانوں، سفارتکاروں اور دوسرے سائنسدانوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتے تھے۔ دراصل ڈاکٹر کلام ان سیاستدانوں، سفارتکاروں اور سائنسدانوں کی برادری کے لئے ایک عزم و حوصلے اور جوش و ولولے کا باعث بنے ہوئے تھے۔ وہ اکثر اسکول اور کالج کے طلبہ سے کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے 1988 سے کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اپنی موت تک انہوں نے 2020 تک ایک ترقی یافتہ ہندوستان سے متعلق اپنے ویژن کے بارے میں ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔

ان کتابوں میں انہوں نے بار بار اس ایقان کا اظہار کیا کہ طلبہ ملک کو ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر کلام کی تحریروں میں بچوں کی طرح سچائی اور صاف گوئی پائی جاتی ہے۔ وہ ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جنہیں ہر تجربہ کے لوگ بہ آسانی سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی سادگی بھی مثالی تھی۔ 1999 میں پرنسپال آف سائٹیفک اڈوائزر کی حیثیت سے اپنی میعاد کی تکمیل کے بعد انہوں نے ملک بھر کے ایک لاکھ طلباء و طالبات سے ملاقات کا عزم کیا تاکہ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارا جاسکے اور ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے لئے کام کرنے کا انہیں قابل بنایا جاسکے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے 1990 میں ہندوستان کو جوہری شعبہ میں خود مکتفی ہونے پر زور دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ہمارے ملک کو 2020 تک سوپر پاور بنانے کے لئے جوہری طاقت کے شعبہ میں خود مکتفی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی ٹکنالوجیز کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے 1998 میں پوکھران ۔ II ٹسٹ کی پرزور انداز میں وکالت کی تھی۔ ڈاکٹر کلام نے ہمیشہ جوہری ہتھیار رکھنے کی تائید و حمایت کی۔ 2001 میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔ ان کے خیال میں ہر ہتھیار جمع کرنے کے لئے نہیں بلکہ تعینات کرنے کے لئے یا استعمال کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے۔ SLV کی کامیابی نے 1981 میں ڈاکٹر کلام کو پدمابھوشن دلایا۔ 1990 میں انہیں پدماویبھوشن عطا کیا گیا اور 1997 میں ڈاکٹر کلام ہندوستان کا سب سے بڑا سیویلین اعزاز بھارت رتن حاصل کرتے ہوئے اس اعزاز کو بھی اعزاز بخشا۔