کاشی، متھرا : کیا مندر کی سیاست کا پھر احیاء ہو رہا ہے

   

رام پنیانی
جس وقت بابری مسجد دن دھاڑے شہید کی جارہی تھی اس وقت وہاں موجود قائدین ’’یہ تو کیول جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘‘ جیسا نعرہ لگا رہے تھے۔
سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین یا اراضی ان لوگوں کے حوالہ کردی جنہوں نے مسجد کو شہید کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا انہوں نے ایک جرم کا ارتکاب کیا۔ ویسے بھی رام مندر انتخابی مقاصد کے لئے ہلچل پیدا کرنے اور مذہبی خطوط پر سماج کو بانٹنے یا تقسیم کرنے کے لئے استعمال کی گئی۔ ہندوتوا کے حامیوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ ان کے بھگوان رام جہاں پیدا ہوئے اسی مقام پر مسجد تعمیر کی گئی تھی اور اسی عقیدہ یا موقف کی بنیاد پر ملک میں سیاست چلائی گئی اور پھر اسی عقیدہ کی بنیاد پر عدالتوں کے فیصلے آئے۔ جن لوگوں نے مندر مسئلہ کے ذریعہ اپنی سیاسی بقاء کو یقینی بنایا اور اقتدار حاصل کیا وہ اسے ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں۔ جب اس مذہبی قوم پرستی کے سنگ میل کو حاصل کرلیاگیا۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اب کس مسئلہ کو ابھارا جائے اور اس پر کیسے سیاست کی جائے۔ ان حالات میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں تخریبی مسائل ایسے مسائل جو کسی کی شناخت کی بنیاد پر ہوتے ہیں ان کی کوئی کمی نہیں۔ چنانچہ مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والی طاقتوں نے ملک میں شناخت کا مسئلہ اٹھایا، مذہبی اقلیتوں کو لوگوں کے سامنے راکھشس کی شکل میں پیش کیا، انہیں حاشیہ پر لایا یا لانے کی کوشش کی اور نسلی قوم پرستی کو فروغ دیا۔ ان طاقتوں کے یہاں لو جہاد جیسا مسئلہ مستقل ایجنڈہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب اس میں یعنی لو جہاد میں اراضی جہاد، کورونا جہاد اور سیول سرویس جہاد وغیرہ شامل کرلیا گیا۔ ان فرقہ پرستوں کے ایجنڈہ میں صرف اس طرح کے جہاد شامل نہیں رہے بلکہ ان لوگوں نے گاو ماتا، دو سے زائد بچوں،

یکساں سیول کوڈ کو بھی مسئلہ بنایا۔ اس طرح کے مسائل میں وقفہ وقفہ سے اضافہ ہوتا گیا جس کے ذریعہ اکثریتی سیاست کا مقصد یہی بتانا رہا کہ اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے مظالم کا شکار رہا ہے۔ اب شاید فرقہ پرست طاقتوں نے سوچا کہ کئی مسائل پر ہم نے معقول فائدہ اٹھایا ہے ایسے میں کیوں نہ کاشی اور متھرا کے مسائل اٹھائیں اور یہ مسائل بہت زوردار ہیں جو پہلے سے ہی موجود کئی مسائل بشمول مسئلہ شناخت میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔ کاشی میں وشوناتھ مندر کے بازو گیان واپی مسجد ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسجد اکبر کے زمانہ میں تعمیر کی گئی جبکہ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اورنگ زیب کا دور تھا جب گیان واپی مسجد کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔ دوسری طرف متھرا میں شاہی عید گاہ مسجد کرشنا جنم بھومی مندر کے بازو کھڑی ہے۔ ہندو بے شمار ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان تمام کا یہ عقیدہ ہے کہ رام، شیوا اور کرشنا ان کے بہت ہی اہم بھگوان ہیں اس لئے ان تینوں کی جائے پیدائش بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ان لوگوں کا ایقان ہے کہ رام کی پیدائش ایودھیا میں ہوئی، شیوا نے وارانسی میں جنم لیا اور کرشنا متھرا میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ ان طاقتوں کا ماننا ہے کہ ان تینوں مقامات کو بازیاب کیا جانا ضروری ہے۔ جہاں تک ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کا سوال ہے ان کے بارے میں یہ بات پھیلادی گئی ہے کہ حملہ آور مسلم حکمرانوں نے بے شمار مندروں کو تباہ و برباد کیا، انہیں منہدم کروایا۔ اس طرح کی مندروں میں سے بقول ہندو قوم پرستوں کے تین مندروں کو بازیاب کرانا ضروری ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی جانب سے یہ باتیں بھی بار بار کی جاتی ہیں بلکہ سارے ہندوستان میں ان باتوں کو پھیلایا بھی گیا ہے کہ جامع مسجد دہلی اور جامع مسجد احمد آباد بھی اُن مقامات میں شامل ہیں جن کے بارے میں ہندو قوم پرست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دراصل مندریں توڑ کر تعمیر کی گئی ہیں۔

ڈی ڈی کوسمبی (مذہبی قوم پرستی: میڈیا ہاوز 2020 صفحہ نمبر 107) میں لکھتے ہیں کہ 11 ویں صدی کے دوران کشمیر پر حکومت کرنے والے راجہ ہرش دیو نے ایک خصوصی عہدہ دار دیوتا پٹنانائک کا تقرر کیا تھا جو مندروں کی مورتیوں میں جڑے گئے سونے، چاندی اور قیمتی پتھروں کو اُکھاڑ لیتا۔ رچرڈ ایٹن ہمیں بتاتے ہیں کہ حریف ہندو راجہ شکست خوردہ مخالفین کے دیوتاؤں کی مندروں کو تباہ کرکے وہاں اپنی دیوتاؤں کی مندریں تعمیر کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر سری رنگا پٹنم میں مراٹھا فوج نے ایک مندر تباہ کردیا تھا اور اس مندر کی دوبارہ تعمیر کسی ہندو راجہ نے نہیں بلکہ ٹیپو سلطان نے کروائی۔ بہرحال بعض تاریخ نویسوں نے یہ واضح کیا ہے کہ مندروں کی تباہی ہندوستان میں سیاسی تخریب کی تخم ریزی کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اگر ہم تاریخ میں واپس لوٹ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بدھ ازم و برہمن ازم کے درمیان تصادم ہزاروں بدھ مندروں کی تباہی کا باعث بنے۔ حال ہی میں رام مندر کی کھدائی کے دوران بھی بدھ عبادت گاہوں یا بدھ وہار کے باقیات دستیاب ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ ممتاز مورخ ڈاکٹر ایم ایس جئے پرکاش کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں 830 اور 966 کے درمیان ہندو تہذیب کے احیاء کے نام پر ہزاروں بدھسٹ مجسموں و عبادت گاہوں اور وہاروں کو گرایا گیا۔ ہندو فاشسٹوں نے بدھ ازم کی علامتوں کو جس انداز میں تباہ و برباد کیا اس بارے میں ملک و بیرون ملک آثار قدیمہ کے کئی ثبوت پائے جاتے ہیں۔ کئی ہندو راجہ ایسے تھے جو بدھسٹوں کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنا اپنے لئے فخر کا باعث سمجھتے تھے وہ بدھسٹ تہذیب کو مکمل طور پر ختم کرنے کے خواہاں تھے۔ جہاں تک رام مندر کے لئے پیدا کردہ صورتحال کا سوال ہے اس نے ہمیں اور ہمارے ملک کی جمہوریت کو پیچھے ڈھکیل دیا ہے اور مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کے سمت ڈھکیلا ہے۔ اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے اعلان کیا ہیکہ وہ کاشی اور متھرا کو آزاد کرانے کی مہم شروع کرے گی۔ اس نے سنگھ پریوار کے کارکنوں سے بھی اس مہم میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے۔ فی الوقت آر ایس ایس یہ کہہ رہی ہے کہ اس مسئلہ میں وہ دلچسپی نہیں لیتی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک اہم موڑ یا وقت پر آر ایس ایس بھی کاشی متھرا کی بازیابی کے مقابلہ میں کود پڑے گی۔ کرناٹک کے ایک بی جے پی لیڈر اور پنچایت راج وزیر کے ایس ایشورپا نے 5 اگست کو ان دونوں مساجد کے بارے میں کہا تھا کہ یہ غلامی کی علامتیں ہیں اور غلامی کی ایک ایک علامت ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ آپ غلام ہو۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا کے تمام ہندوؤں کا یہ خواب ہے کہ وہ غلامی کی علامتوں کو اسی طرح مٹا دے جس طرح ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ متھرا اور کاشی کے مساجد کو بھی تباہ کر دیا جائے اور وہاں مندروں کی تعمیر عمل میں لائی جائے گی۔ اب ہندوستانی عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل پر دوبارہ سیاسی ہلچل پیدا ہونے سے ملک کو بچائیں اور مزید مندروں کی مہم کی مخالفت کریں۔