کاش! حکومت ہٹ دھرمی نہ کرتی

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس

رائسیناہل کے اوپر کونے کے دفتر سے دیکھنے پر وہاں کا نظارہ دلکش نظارہ ہوسکتا ہے اور خاص طور پر اگر تصاویر اور مناظر کی چھان بین یا جانچ چیف اکنامک اڈوائزر نے کی ہو۔ مثال کے طور پر روزگار سے محرومی کا رجحان غائب اور تازہ اندراج (ملازمتوں کے لئے) ظاہر ہوسکتے ہیں اور ای پی ایف میں بھوکے چہرے غائب ہوسکتے ہیں اور ان کی جگہ جو فی ماہ 5 کیلو اناج دو ماہ کے لئے ان کے انعام کی شکل میں حاصل کرنے والے افراد لے سکتے ہیں اس طرح محنت مشقت کرنے والے احتجاجی کسانوں کے چہرے بھی دھندلے پڑسکتے ہیں اور اسکرین اس غیر حاضر زمیندار سے پر ہوسکتا ہے جو اپنا کسان سمان چیک جمع کروا رہا ہو۔ یہی اقتدار کا جادو ہے اور اقتدار کے حامل لوگ اسی جادو کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یہی حکام اور تنقید و تنقید کرنے والوں سے نفرت کرنے والوں کا جادو ہے۔ ایک متوسط ہندوستانی رائسینا بناہل پر چڑھنے کی خواہش یا ارمان نہیں رکھ سکتا۔ وہ چاہے مرد ہو یا عورت خود کو کم از کم اور یا زیادہ سے زیادہ گاؤں یا کسی ٹاؤن یا شہر کے وارڈ تک محدود رکھے ہوئے ہے کیونکہ اس کے دونوں پاوں بڑی مضبوطی کے ساتھ زمین پر جمے ہوئے ہیں۔ ہندوستانیوں کی اوسط تعداد جو نظارہ کرتی ہے وہ معمولی حیثیت کا مشاہدہ ہوتا اور یہ مشاہدہ یا نقطہ نظر معمولی خراب و بھیانک بھی ہوسکتا ہے اس کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچائی کے بہت قریب ہوگا۔
ایک سروے کا اہتمام : میں نے اپنے ایک دوست مسٹر جواہر (جنہوں نے تحقیق کنندگان کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے) سے درخواست کی کہ وہ نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 1000 افراد کا ٹیلی فونک سروک کریں (یہاں تک ان لوگوں کا بھی جو
Gated Communities
میں مقیم ہوں اور اپنی زندگیوں کو متوسط طبقہ کی زندگیاں قرار دینے کے خواہاں ہوں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ ان مقامات پر بود و باش اختیار کرنے کے باوجود متوسط طبقہ میں شامل نہیں ہوسکتے) کیونکہ جہاں تک ہم نے نچلے متوسط طبقہ کی تعریف کی ہے وہ اس طرح ہیکہ ایسے لوگ جن کی ماہانہ آمدنی 5 ہزار تا 3 ہزار روپے ماہانہ ہو وہ
Lower middle class
کے زمرہ میں آتے ہیں۔ بہرحال اس سروے میں 1004 افراد سے بات کی گئی ان کے انٹرویوز لئے گئے اور اُن سے گفت و شنید میں اُن لوگوں نے 9 سوالات کے جوابات دیئے ،اپنے ای میل آئی ڈیز اور موبائل ٹیلی فون نمبرات بھی دیئے۔ بعض افراد نے ہوسکتا ہیکہ اپنی آمدنی کسی قدر کم بتائی ہو لیکن اس کے باوجود اگر آمدنی 30,000 روپے ماہانہ سے کم بھی ہو جائے (بتائی جائے) تو اس سے ڈیٹا مسخ نہیں ہوگا۔ اُس سروے میں پہلے لاک ڈاون کے بعد 12 ماہ کی مدت سے متعلق جو سوالات کئے گئے ان سے حسب ذیل انکشاف سامنے آئے یاد رہے کہ 25 مارچ 2020 کو پہلا لاک ڈاون نافذ کیا گیا تھا۔
-1 سروے میں 1004 افراد سے بات کی گئی بعض سوالات کئے گئے
-2 ان میں سے 880 افراد نے بتایا کہ ان کی آمدنی میں گراوٹ آئی ہے۔ 117 کے مطابق ان کی آمدنی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور 7 افراد کا کہنا تھا کہ ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔
-3 758 افراد نے بتایا کہ ان کے مصارف یا خرچ میں اضافہ ہوا ہے۔ 115 نے بتایا کہ مصارف یا خرچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور 91 نے بتایا کہ ان کے خرچ میں کمی یا گراوٹ آئی ہے۔
-4 سروے میں 725 افراد نے بتایا کہ ان کی بچتوں میں کمی ہوئی لیکن صرف 329 کا کہنا تھا کہ ان کے اثاثوں میں گراوٹ آئی۔ مابقی افراد کے مطابق ان کے اثاثہ جات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی۔

-5 جیسے کہ توقع تھی 702 افراد نے واضح طور پر بتایا کہ انہیں قرض لینا پڑا اور قرض کا ذریعہ بینک، مائیکرو فینانس ادارے، سیلف ہیلپ گروپس، چٹ فنڈ، خاندان، دوست احباب وغیرہ تھے۔ بعض نے بتایا کہ ان لوگوں نے ایک سے زائد ذرائع سے قرض حاصل کیا۔ زیادہ تر لوگوں نے 6.53 شرح سود پر قرض حاصل کیا اور مقررہ وقت میں معہ سود قرض ادا کرنے کے معاملہ میں 176 افراد پر اعتماد تھے۔ 164 پر اعتماد نہیں تھے، اور 256 شکوک و شبہات میں مبتلا نظر آئے۔

اگر ہم دیکھیں تو لوگوں نے زیادہ تر انکم یا آمدنی، مصارف (خرچ) بچتوں اور حصول قرض کے بارے میں بہت زیادہ جوابات دیئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد 702 رہی جو 70 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے جوابات سے یہی پتہ چلتا ہیکہ ہمارے ملک کے لئے یہ رجحان ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ملک کی حکومت نے حالیہ عرصہ تک یہی دعوے کئے تھے کہ قومی معیشت تیزی سے آگے بڑھنے والی عالمی معیشتوں میں شامل ہے اور وہ آنے والے دنوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گی۔ ہندوستان نے 2004-2014 اوسطاً شرح نمو 7.6 فیصد کا مشاہدہ کیا اور اس مدت کے دوران 27 کروڑ ہندوستانی شہریوں کو جو خط غربت سے نیچے زندگی گذاررہے تھے غربت کے دلدل سے باہر نکالا اور یہی تاریخ رہی لیکن اب ہندوستان کے شرح نمو میں بھاری گراوٹ آئی ہے۔ مذکورہ سروے کے ذریعہ جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں وہ این ایس اوز کے تخمینہ برائے سالانہ قومی آمدنی 2020-21 کے مطابق 2020-21 میں قومی مجموعی پیداوار (-7.3) تک پہنچ گئی۔ اکسپورٹ امپورٹ استعمال، جی ایف سی ایف
(gross fixed capital formation)
جیسے چار عشاریئے بھی شدید متاثر ہوئے۔ آر بی آئی نے معیشت میں
Demand Shock
جیسے مسئلہ کی نشاندہی کی جبکہ نوبل لاریٹ ڈاکٹر ابھیجیت بنرجی نے مزید مصارف کا مشورہ دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے ضرورت پڑنے پر کرنسی پرنٹ کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔
این ایس او اور مقامی سروے دی برڈ اینڈ دی وارم۔ میں فیلڈ پر ایک ہی تصویر دیکھی گئی اور وہ موافقت تھی جس نے وزیر فینانس اور چیف اکمامک اڈوائزر کو ایکو چیمبر میں جھوڑ دیا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت ہیکہ 2017-18 مستقل قیمتوں اور فی کس سالانہ آمدنی پر قومی مجموعی پیداوار گراوٹ کا شکار رہی۔
سال 2017-18 میں قومی مجموعی پیداوار 1,31,75160 کروڑ روپے اور اوسط فی کس آمدنی 1,00,268 روپے رہی۔ 2018-19 میں جی ڈی پی 1,40,03,316 کروڑ روپے اور اوسطاً فی کس آمدنی 1,05,525 کروڑ روپے اور اوسطاً فی کس آمدنی 1,08,645 کروڑ روپے رہی۔ اسی طرح سال 2020-21 میں قومی مجموعی پیداوار 1,34,08,882 کروڑ روپے اور اوسطاً فی کس آمدنی 99,684 روپے رہی۔ اس طرح ایک ہندوستانی کی آمدنی جو 2017-18ء میں تھی گر گئی اور یہ سب حکومت کی تباہ کن معاشی پالیسیوں (نوٹ بندی جی ایس ٹی) اور پھر کووڈ۔ 19 بحران کے ساتھ ساتھ اقتصادی بدانتظامی کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ اگر حکومت عالمی مالیاتی اداروں آر بی آئی، ممتاز ماہرین اقتصادیات اور اپوزیشن جماعتوں کے مشوروں پر عمل کرتی تو وہ معاشی بحران پر ضرور قابو پالیتی۔