کانگریس صدر کے انتخاب کی تیاریاں

   

اب ہوائیں ہی کریں روشنی کا فیصلہ
جس دِیئے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا
کانگریس صدر کے انتخاب کی تیاریاں
ملک کی قدیم سیاسی جماعت کانگریس آج جن حالات کا شکار ہے وہ سارا ملک جانتا ہے ۔ کچھ حالات پارٹی نے خود پیدا کئے ہیں تو کچھ حالات پیدا کروائے جا رہے ہیں۔ سارا کچھ اسی لئے ہو رہا ہے کہ ملک سے کانگریس پارٹی کا خاتمہ کردیا جائے ۔ بی جے پی نے تو کھلے عام یہ نعرہ دیا تھا کہ وہ ملک کو کانگریس مکت بھارت بنانا چاہتی ہے ۔ اس کام میں بی جے پی جہاں خود سرگرم عمل ہے وہیں کچھ دوسری جماعتوں کو بھی ’ استعمال ‘ کرتے ہوئے کانگریس کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ جہاں کچھ علاقائی جماعتیں اور مقامی قائدین کی جانب سے اس کام میں اپنا رول ادا کیا جا رہا ہے وہیں کانگریس کے بھی کچھ قائدین کو خرید کر ان کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ انہیں بھی خود ان کی پارٹی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور ایک موقع کے بعدیہ قائدین کانگریس سے قطع تعلق کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کانگریس کو جن حالات کا سامنا ہے ان کو دور کرنا خود کانگریس کی ذمہ داری ہے ۔ 2019 کے بعد سے کانگریس کا کوئی مستقل صدر نہیں ہے ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد راہول گاندھی نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفی پیش کردیا تھا ۔ سونیا گاندھی کو عبوری صدر کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور اب تک وہی اس ذمہ داری کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ پارٹی کے کل وقتی اور مستقل صدر کے فقدان کی وجہ سے بھی کانگریس کی حالت انتہائی ابتر ہوئی ہے ۔ اب شائد کانگریس بہت تاخیر سے احساس ہوا ہے کہ اسے مستقل صدر کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ کانگریس نے انتخابی عمل کا آغاز کردیا ہے ۔ تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ صدر کا انتخاب بھی آسان نہیں ہوگا ۔ فی الحال اس عہدہ کیلئے چیف منسٹر راجستھان اشوک گہلوٹ کا نام لیا جا رہا ہے اور دوسرے نمبر پر سابق وزیر خارجہ ششی تھرور بھی دوڑ میں شامل ہیں حالانکہ کچھ ریاستوں سے مسلسل اصرار کیا جا رہا ہے کہ راہول گاندھی ہی کو دوبارہ پارٹی صدر کا عہدہ قبول کرلینا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں ریاستی یونٹوں کی جانب سے قرار دادیں بھی منظور کی جا رہی ہیں۔ تاہم راہول گاندھی کا موقف اس پر واضح نہیں ہے ۔
اب جبکہ کانگریس صدر کے انتخاب کا عمل شروع ہو رہا ہے ۔ کچھ قائدین نے امیدواری پیش کرنے کا کھلے عام اظہار کیا ہے تو کچھ بالواسطہ انداز میں ایسی خواہش رکھتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ جو بھی قائدین پارٹی صدارت کیلئے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں انہیںاپنے موقف کا واضح اظہار کرنا چاہئے ۔ جو بھی قائدین مقابلہ میں ہونگے انہیںاپنے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ چاہے راہول گاندھی ہوں یا پارٹی کے کوئی اور قائدین ہوں ۔ سبھی کو مقابلہ کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے ۔ جو بھی قائدین صدارتی انتخاب لڑنا چاہیں اور میدان میں آگے آئیں انہیں بھی پارٹی کا ذمہ دار شخص سمجھا جانا چاہئے ۔ ان کے خلاف ایک مخصوص گوشے سے کوئی مہم نہیں چلائی جانی چاہئے ۔ پارٹی میں جمہوری عمل کے ساتھ نئے صدر کا انتخاب عمل میںلاتے ہوئے پارٹی کیڈر اور قائدین میںنیا اعتماد اور جوش و جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ جو قائدین اس عہدہ کیلئے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی دوسرے امیدواروں کے تعلق سے کوئی تلخ رائے یا تلخ کلامی نہیں کرنی چاہئے ۔ پارٹی کے اندر ایک خوشگوار ماحول میں اگر صدر کا انتخاب عمل میںآتا ہے تو اس سے پارٹی قائدین اور کارکنوں کے علاوہ خود ملک کے عوام پر بھی مثبت اثر مرتب ہوسکتا ہے ۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی سے تعلقات یا ان کی مخالفت کے نام پر پارٹی کے امکانات کو متاثر کرنے سے سبھی قائدین اور کارکنوں کو گریز کرنا چاہئے ۔ اس کے پارٹی پر ہی منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔
راہول گاندھی کا جہاں تک سوال ہے وہ پارٹی کے حق میں بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کرچکے ہیں۔ وہ ٹاملناڈو سے کیرالا میں داخل ہوچکے ہیں ۔ یہاں سے جنوبی ہند کی دوسری ریاستوں میں جائیں گے ۔ صدارتی انتخاب کے معاملے میں راہول گاندھی کو بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے ۔ اگر وہ بھی صدارتی انتخاب کی دوڑ میںشامل ہوجاتے ہیں تو اس سے پارٹی کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم ان کا انتخاب بھی رائے دہی سے ہونا چاہئے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پارٹی کے تعلق سے عوام میں اچھا پیام جائے گا ۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پارٹی کیڈر اور قائدین میں راہول گاندھی کی تائید و حمایت میں بھی اضافہ ہوگا ۔