کانگریس کی ایک اور یاترا؟

   

گذشتہ دنوں کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا اختتام عمل میں آیا ۔ کنیا کماری سے کشمیر تک راہول گاندھی نے پیدل سفر کرتے ہوئے اپنی یاترا کو مکمل کیا ۔ یاترا میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جگہ جگہ شامل ہوئے ۔ عوام میں اس تعلق سے جوش و خروش دیکھا گیا تھا ۔ یاترا کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب عوام نے اس یاترا کا کھلے دل سے استقبال کیا اور اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں نفرتوں کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے متنفر کیا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کے تعلق سے شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے دست و گریباں کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ ایک دوسرے کے تعلق سے عوام کے ذہنوں میںشبہات کو جنم دیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں راہول گاندھی نے جب بھارت جوڑو یاترا کا اعلان کیا تو اس کا کئی گوشوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ۔ راہول گاندھی کی یہ یاترا واحد یا پہلی ایسی کوشش تھی جس پر تنقید کرنے کا بی جے پی کوئی موقع نہیں ملا ۔ حالانکہ ابتداء میں راہول گاندھی کی ٹی شرٹ کی قیمت کو موضوع بناتے ہوئے یاترا پر تنقید کی کوششیں کی گئیں لیکن جب اس کا الٹا اثر ہونے لگا اور کانگریس کی جانب سے جوابی سوال کئے جانے لگے تو پھر بی جے پی نے اس پر خاموشی اختیار کرنے ہی کو ترجیح دی ۔ یہ پہلا ایسا موقع تھا جب بی جے پی پوری کوشش اور ارادے کے باوجود راہول گاندھی یا پھر ان کی یاترا کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور نہ ہی راہول گاندھی کاکوئی مذاق بنایا گیا ۔ سارا ملک اس بات کا معترف ہے کہ یہ یاترا کامیاب رہی ہے ۔ حالانکہ اس کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے لیکن کانگریس کارکنوں اور قائدین میں اس یاترا کی وجہ سے نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے ۔ ملک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتوں نے بھی اس یاترا کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس میں حصہ بھی لیا اور اس یاترا کو موجودہ حالات میں ایک اہم ضرورت بھی قرار دیا گیا ۔ اس یاترا سے کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے شخصیتوں نے اظہار یگانگت بھی کیا ہے ۔
بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی کے بعد حالانکہ راہول گاندھی دوسری سرگرمیوں میں مصروف نہیں رہے لیکن انہوں نے پارلیمنٹ میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بھی اپنے وجود کا احساس ضرور کروایا ہے ۔ ان کی تقریر کو سنجیدگی سے سنا بھی گیا ہے ۔ کئی گوشوں سے اس رائے کا اظہار کاے جا رہا تھا کہ بھارت جوڑو یاترا کے اثر کو ختم ہونے سے بچانے کیلئے مزید کوئی مصروفیت شروع کی جانی چاہئے ۔ اس کی مقبولیت سے راہول گاندھی کو اب قدم آگے بڑھاتے ہوئے اور بھی کچھ کرنا چاہئے تاکہ جو ماحول اس کے ذریعہ بنا ہے اس کو برقرار رکھا جاسکے ۔ کہا جا رہا ہے کہ حالات کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے کانگریس میں ایک اور یاترا کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ۔ اس بار یاترا مشرقی ہندوستان سے مغربی ہندوستان تک نکالی جائے گی ۔ اس پر پارٹی میں سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے اور اس یاترا کی قیادت بھی راہول گاندھی کرسکتے ہیں۔ اگر واقعتا ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی ایک خوش آئند بات ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کو سیاسی جماعتوں میں اپنے وجود کا احساس دلانے کی جدوجہد پر توجہ کرنے کی بجائے عوام میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنے پر زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کانگریس پارٹی عوام سے اپنے ٹوٹے ہوئے رابطوں کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو دوسری علاقائی جماعتوں کو اپنے ساتھ لا کھڑا کرنے میں اسے زیادہ کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ۔بنیادی مسئلہ عوام سے ٹوٹے رابطوں کو بحال کرنا ہے ۔
جہاں تک یاتراؤ ں کی بات ہے تو یہ ساری ذمہ داری صرف راہول گاندھی پر ہی عائد کرنے سے بھی اجتناب کیا جانا چاہئے ۔ پارٹی میں جو دوسرے عوامی چہرے ہیں انہیں بھی اس معاملے میں اپنا رول اداکرنا چاہئے ۔ پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو بھی سیاحتی سیاست کی بجائے عملی سیاست اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف انتخابات کے موقع پر عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ان کا اعتماد نہیں جیتا جاسکتا ۔ صرف راہول گاندھی کی یاترا میںبعض مواقع پر شرکت کرتے ہوئے حصہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ تمام قائدین کو اپنے اپنے طور پر اور اپنے اپنے حلقہ اثر کے اعتبار سے عوامی رابطوں کو بحال کرنے سرگرم ہونا چاہئے ۔