کانگریس کے مسلم ترجمان کہاں غائب ہوگئے؟

,

   

نئی دہلی۔ برطانوی حکومت کے دوران میں قائم کی گئی سب سے قدیم سیاسی پارٹی ایسا لگ رہا ہے کہ اپنے دستور‘ روایت او رمنشور کوفراموش کرچکی ہے یا پھر پارٹی اعلی کمان کی جانکاری کے بغیر اپنے سونچی سمجھے پلان کے مطابق پارٹی کو ہندوتوا کی طرف دھکیل رہی ہے۔

ایک وقت میں نوجوان مسلمان مولانا ابولکلام آزاد کو اپنے صدر کے طور پر استعمال کرنے والی مذکورہ پارٹی اب مسلمانو ں کو نظر انداز(ایک کونے) میں کررہی ہے۔

بی جے پی کی پولرائزیشن (او رامکانی ہندوجوابی کاروائی)کا خوف(ہائی کمان کو) دیکھا کر مسلم سیاسی قائدین کو حاشیہ پر دھکیل دیاگیا ہے۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں کل ہند کانگریس کمیٹی(اے ائی سی سی) کے مرکزی دفتر پر منعقدہ ایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب کے لئے مسلم ترجمان سے استفسار کیاگیاہے؟۔

ہریانہ کے سیاسی لیڈر جس کو اسمبلی ضمنی انتخابات میں دو مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے رندیپ سنگھ سرجیوالا کی زیر قیادت چلائے جارہے میڈیا دفتر میں بڑھتی فرقہ وارانہ سونچ کے متعلق مسلم کمیونٹی بہتر انداز میں واقف ہے۔

مذکورہ کمیونٹی میں چیہ میگوئیاں چل رہی ہیں کہ سرجیوالا وہی کررہے ہیں جو ان سے قبل جناردھن دیوڈی نے کیاتھا۔

غلام نبی آزاد اور سلمان خورشید کانگریس پارٹی کے ترجمان کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ غلام نبی آزاد رراجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور ہریانہ کے انچارج بھی ہیں۔

لہذا وہ جب کبھی اے ائی سی سی ائے وہ صرف (اپنی کارکردگی او ردیگر) معاملات جو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے (ان کے رول)یاپھرہریانہ میں کسی نئے داخلہ پر یا پھر کانگریس ایکزیکٹیو کمیٹی کی جانب سے لئے گئے فیصلوں کے متعلق میڈیا سے بات کرنے کے لئے آتے ہیں۔

سلمان خورشید کو اس چھوٹے سے مرعات سے بھی محروم کردیاگیا ہے‘ وہ ایسی حالت میں جس میں میڈیا کو بیان دینے سے بھی وہ گھبراتے ہیں۔

دو مرتبہ بطور خارجی وزیر کے علاوہ انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دئے ہیں اور سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل ہیں اور اعلی تعلیم یافتہ شخص بھی ہیں مگر بڑی مشکل سے سرجیوالا کو وہ یاد آتے ہیں۔

سلمان خورشید کو سینئر قومی ترجمان کا عہدہ کیوں نہیں دیاگیا اور ان کی تصویر کے ساتھ کیو ں سینئر ترجمان لکھا جاتا ہے اس کا سوال کا جواب کانگریس پارٹی کے پاس بھی نہیں ہوگا۔

ٹھیک اسی طرح سابق صحافی اور سفارت کار میم افضل جو سابق جے این یو اسٹوڈنٹ یونین بھی ہیں اور موجودہ رکن راجیہ سبھا سید ناصر حسین کو بھی قومی ترجمان کے پینل میں شامل کیاگیاہے۔

دیگر مسلمانو ں کی طرح ان دونوں قومی ترجمان کو کردار بھی برائے نام ہے۔

انہوں نے آخری مرتبہ اے ائی سی سی میں کب پریس کانفرنس سے خطاب کیاتھا اس کا جواب سرجیوالا بھی نہیں دیے سکیں گے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ان لائن پریس کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں آیا مگر ان میں سے کسی کو بھی مدعو نہیں کیاگیاہے۔

کانگریس نوجوان کی حوصلہ افزائی اور انہیں آگے لانے کام کررہی ہے مگروہ تمام غیر مسلم ہیں۔ اپنے موقف پر قائم رہنے والے اور منھ پر بات کرنے والے اقلیتی سل کے چیرمن ندیم جاوید کے متعلق بھی ایسا لگ رہا ہے کہ انہیں لو پرفائیل رہنے کے لئے کہاگیا ہے۔

جس انداز میں انہوں نے کانگریس اقلیتی سل کا تنظیم جدید کی ہے اور کمیونٹی سے اس کاتعارف کروایا ہے وہ کسی سے چھپی بات نہیں ہے۔

جب سے میم افضل کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ ایک ایسی پریس کانفرنس نہیں جس میں انہوں نے خطاب کیااو رکوئی تنازعہ کھڑا ہوا ہے۔

نہایت پرسکون اور بہترین انداز میں وہ اپنی پارٹی کی نمائندگی نیوز چینلوں پر کرتے ہیں۔ مگر انہیں معروف نیوز چینلوں کے مباحثہ میں حصہ لینے کے لئے نہیں بھیجا جاتا ہے۔

وہ صرف غیر معروف ٹی وی چیانلوں جیسے سوراج پر ہی دیکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح کا موقف ناصر حسین کا بھی ہے۔

میڈیا پینلسٹوں میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق رکن پارلیمنٹ حسین دالوائی کا نام بھی شامل کیاگیا ہے۔ مگر وہ بھی ایک نشان کے طور پر ہیں۔

یقینا مسلم کمیونٹی میں یہ چیہ میگوئیاں بھی چل رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں (جہاں تک اس پس منظر کی بات ہے) بی جے پی نے کانگریس سے بہتر کام کیاہے کیونکہ انہو ں نے مختارعباس نقوی‘ سید شہنواز حسین اور سید ظفر احمد اور دیگر اہم کردار پیش کئے ہیں۔